مرقع زبان و بیان دہلی/شکریہ
شکریہ
حضورِ اقدس و اعلیٰ سلطانِ دکن سلّمہ اللہ تعالیٰ
چونکہ میرا جدید وظیفہ عنایت بالائے عنایت پر بلا توسّل توجہ فرما کر مع اِجرائے منصبِ برخوردار سعادت اطوار دربار احمد طال عُمرُہ حضور لامع النور نے قومی زبان، علمی زبان، درباری زبان، مغلیہ خاندان کی یادگار، میری دائمی تصانیف متعلقۂ زبان و اخلاق و ادبِ اردو یعنی قومی خدمت جاریہ کے باعث یہ رتبہ، یہ عزت، یہ فخر عطا فرمایا کہ:
بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے سبب جو دیا، دیا مجھ کو
تو یہ کب ہو سکتا ہے کہ میری کوئی سی تصنیف، کوئی سا مضمون اس شکریہ کے ادائے فرض سے آنکھ چرائے اور اس نمک حلالی کو کور نمکی کا پالا بنائے۔ ہارون رشید، مامون رشید کا ذکر تاریخوں میں پڑھا تھا، بغداد و قرطبہ کی علمی شان و شوکت کو سیاحوں کے سفر ناموں میں دیکھا تھا، حاتم کی فیاضانہ کہانیاں عربوں کی رگ رگ میں بسی ہوئی پائی تھیں، مگر خدا سلامت رکھے عالیجناب معلیٰ القاب نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی ذات بابرکات، مجموعہ صفات کو کہ ان کی فیاضی، علمی قدردانی، ہر فن کی دستگیری، غربا پروری کو اپنے کانوں سے سنا، آنکھوں سے دیکھا، ہم نے خود برتا اور تمام خلائق کو اس برتاؤ کا مدّاح و ثنا خواں پایا۔ پس ہمارا مختصر پہلا نذرانہ باعتبارِ تحریر ما قلّ و دلّ بحالتِ اختصار و بلحاظِ تحقیق و نتائج زبان اُردو وغیرہ از حد وسیع ہے؛ نہایت عجز و انکسار اور کمال ادب سے “برگ سبز است تحفہ درویش” پر عمل کر کے دست بستہ پیش کیا جاتا ہے:
پائے ملخے پیشِ سلیماں بُردن
عیب است، لیکن ہنر است از مورے
اگر عمر نے وفا کی اور اللہ نے چاہا تو ضرور وفا کرے گی، نیز ساتھ ہی حصول سرمایہ نے دغا نہ دی تو اسی طرح لغات النساء، بچوں کا رکھ رکھاؤ، اخلاق النساء، رسالہ روزمرہ، رسالہ تفہیم المصادر، اُردو کا انوکھا قاعدہ مع طرز تعلیم بھی جن کے اکثر مسودوں کو فدوی نے قابلِ انطباع بنا دیا ہے، پبلک سے داد لے کر حضور اقدس و اعلیٰ کی نذر کرے گا بلکہ ہمیشہ کرتا رہے گا۔ اور ان شاءاللہ تعالیٰ وہ دن عنقریب آنے والا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے اور میرے کارکنانِ دفتر کو پاؤں پھیلا کر بیٹھنے کے واسطے ایک چھوٹا سا کمرہ بنوا دے گا:
کام رکنے کا نہیں اے دلِ ناداں کوئی
خود بخود غیب سے ہو جائے گا ساماں کوئی
چنانچہ امید بستہ پکار پکار کر یہ شعر سنا رہی ہے:
افسردہ دل نہ ہو در رحمت نہیں ہے بند
کس دن کھلا ہوا درِ شاہِ زماں نہیں
تاریخ تالیف
مرقع کی ترتیب ہجری جو دیکھی
تو نکلی ہے نذرِ آصف بہادر
دہلی سید احمد دہلوی
دسمبر ١٩١٥ء مؤلف فرہنگ آصفیہ وغیرہ
دعا گوئے سلطنت ابد قیام حضورِ نظام خلدہ اللہ ملکہ
واہ رے تیری قدرت
خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تصنیف کدہ یعنی کمرۂ دفتر فرہنگِ آصفیہ اور اس کا خلوت کدہ نہایت خوشنما بن کر تیار ہو گیا۔ اس کمرہ پر اس کے نام کا پتھر بھی لگ گیا۔ صرف استرکاری، فرنیچر اور کواڑوں کی چوڑیاں باقی ہیں۔صدر دروازے کے لیے مصرع ذیل تجویز ہوا ہے، کیونکہ یہ سارا سلطنت آصفیہ کے دم قدم اور اس کی عام فیاضی کا ظہور ہے۔ مصر؏: ہے نشانِ فیض عام دولت آصف یہاں
اگر چہ فرہنگ آصفیہ مقروض ہو گیا مگر یہ قرضہ خدا تعالیٰ عنقریب ادا کردے گا، کیونکہ سلطنت آصفیہ کے آثار قدیمہ کا ایک معزز ناظم بچشم خود دیکھ کر اس تعمیر کی نسبت اپنی چشم دید نہایت سچی رائے تحریر کر گیا ہے۔فقط
سید احمد دہلوی 28 مئی ١٩١٦ء