Jump to content

مرقع زبان و بیان دہلی/پُر مذاق ارشدی اقسام اردو

From Wikisource

پُر مذاق ارشدی اقسام اردو


ہائے ارشد! وائے ارشد! کیا کہنا ہے، کتنی دور کی سوجھتی ہے۔ اس فرہنگ کی لاجواب و محققانہ تقریظ میں کس ظریفانہ انداز سے اقسام موجودہ زبان کی تشریح پر قلم اٹھایا ہے اور آئندہ کے واسطے کس عمدگی اور کس خوبی سے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ باید و شاید۔ سچ تو یہ ہے کہ غضب ڈھایا ہے۔ جو کچھ ہوا اور ہونا ہے اس کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ پورا لطف تواصل تقریظ کے ملاحظہ سے آ سکتا ہے۔ مگر خیر نہایت اختصار کے ساتھ اس موقع پر اُس تقسیم میں سے چند نمبر ہم بھی انتخاباً درج کرتے ہیں۔ یہ کامل تقریظ جادو سے بھری ہوئی ہے۔ ہنستوں کو رلا دینا، روتوں کو ہنسا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب اور چلتا ہوا منتر ہے۔

آپ لکھتے ہیں کہ اقسام اردو میں سے :

“اول نمبر پر اردوئے معلّی ہے جو نورِ سلاست و فصاحت سے مجلّا اور زبان دہلی کا اصل فوٹو ہے۔ دوسرے نمبر پر اردوئے مطلّا ہے جو تکلف و تصنع سے پر، سلاست و فصاحت سے معرّا، طلاقت لِسانی اور لَسّانی سے معمور خاص لکھنؤ کی خود ستا زبان ہے۔ تیسرے نمبر پر فاضلانہ و مولویانہ اُردو جسے زبانِ فضلا و علما کہنا چاہیے۔ اس کا نام فرہنگی اردو ہے، جس کے ہر فقرہ کے واسطے فرہنگوں کے دیکھنے اور اوراقِ لغات الٹ پلٹ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چوتھے نمبر پر خود رنگی اردو ہے جو اخبارات کے نامہ نگار اور ایڈیٹوریل مضمونوں کا مجموعہ ہے۔ پانچویں نمبر پر ہڑدنگی اردو ہے جو پنچ اخباروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔ ہزل و خرافات کے سبب قیودِ زباں آوری سے آزاد اور متانت سے کوسوں دور ہے۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگریزوں، ہندوستانی عیسائیوں، دفتر کے کرانیوں، چھاؤنیوں کے سوداگروں، لشکری قلیوں اور لین بوائز کی ستّیاناسی زبان ہے۔ ساتویں نمبر پر لفنگی اُردو ہے جسے آکا بھائیوں کی لٹھ مار، کڑاکے دار زبان کہو یا پہلوانوں، ہانڈی بازاروں، ضلع اور جگت کے ماہروں، پھبتیوں کے استادوں، گالی گلوج کے سرتاجوں کا روز مرہ کہنا چاہیے۔ آٹھویں نمبر پر بے ڈھنگی اردو ہے جو ریلوے کے انگریزی داں بابو اس زبان کو بیسنی زبان بنا کر حقیقی اُردو کی ٹانگ توڑتے ہیں۔ بقول شخصے “فارسی را ٹانگ توڑم تاکہ وا لنگڑی شود”۔ نویں نمبر پر خود آہنگی اردو ہے یعنی ناول نویسوں، ڈرامہ نگاروں اور ایکٹروں کی خود تراشیدہ زبان ہے۔ دسویں نمبر پر سربھنگی اُردو ہے، یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں وغیرہ کی زبان۔ گیارھویں نمبر پر جنگی اردو ہےجو اہل مناظرہ کسی کی ہجو لکھتے اور اپنی زباں زوری سے مخاطب کی آبرو لے ڈالتے اور لائبل کیس سے صاف بچ جاتے ہیں۔ اس قسم کی تقسیم چاہو جہاں تک کرتے چلے جاؤ، کسر متوالی کی طرح کبھی ختم نہیں ہوگی۔

جس زبان کی پیشین گوئی کی ہے اس کا نام سر چنگی([1]) اردو ہے۔ یہ اردو بڑی قیامت خیز، فتنہ انگیز ہوگی۔ “پارہ خواہد شد ازیں دست گریبا نے چند”۔ اس اردو کی ایسی مثال ہے جیسے پورب میں اِدھر بھادوں کا مہینہ آیا، اُدھر شوقینوں کو کنہیا جی کے جنم کی خوشی نے گرمایا۔ ولادت سے پہلے کرتہ، ٹوپی، ہنسلی، کڑے تیار ہو گئے۔ اگر چہ یہ اردو ابھی پیدا نہیں ہوئی، مگر اس کا پیش خیمہ، ڈیرا ڈنڈا پورپ میں آگیا ہے۔ لکھنے کے حروف بڑی شد و مد سے تراشے جا رہے ہیں۔ وہ زمانہ قریب ہے کہ خود بدولت بِراجیں۔ چونکہ بھاشا اور سنسکرت کے الفاظ گھسیٹ گھسیٹ کر اس میں ڈالے جائیں گے اور دیگر زبانوں کے لغت کھینچ کھینچ کر باہر نکالے جائیں گے، قدیمی اردو داں اس تازہ اردو کو پورا نہ لکھ سکیں گے نہ بول سکیں گے؛ نا چار سرزنش اٹھانی پڑے گی۔ اس واسطے قبل از ظہور بطور تفاؤل اس کا نام سرچنگی اردو رکھ دیا”۔

گو اس طرح افزونیٔ لغات میں بھرتی کے الفاظ کی ترقی ہوئی مگر علمی، تہذیبی، شریفانہ زبان کوسوں بھاگ گئی۔ اس بے میل، انگھڑ الفاظ کی بیشی کو ہم ترقی نہیں کہہ سکتے۔ ٹکسالی زبان کو مٹا کر غیر ٹکسالی محاورات کو داخل زبان کرنا اور ادبی تصانیف میں اُس سے کام لینا گویا زبان کے گلے پر الٹی چُھری پھیر کر اسے ذبح کرنا ہے۔

ہم سررشتہ تعلیم کی موجود تصانیف میں بہت بڑا فرق اور زبان کا نقص پاتے ہیں۔ یہاں بھی خوبیٔ زبان سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ وہ پہلی سی ولولہ خیز، شوق انگیز زبان نہ رہی ۔ اہل زبان چپ اور اس شعر کے مصداق ہو گئے:

چونک جفت احولانیم اے شمن


لازم آید مشرکانہ دم زدن

پرانی اُردو کو فصیحانہ،مودّبانہ، مہذبانہ زبان نہیں سمجھا جاتا بلکہ روز بروز ایسی زبان کا خاکہ اڑایا جاتا ہے۔

(بقیہ اگلے صفحہ پر)

اس میں شبہ نہیں ہے کہ اب یہ زبان دور دور کے دھاوے مارنے لگی ہے۔ یورپ، افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور شمالی ایشیا تک اس کے بولنے والے پہنچ گئے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ وہاں کے اکثر لوگ اس زبان کو بولنے اور سمجھنے لگیں گے۔ بلکہ جس وقت اس موجودہ جنگ عظیم میں جرمن کے فوجی سپاہیوں کو ہمارے ہندوستانی دل چلے سپاہیوں نے نرغہ ڈال کر پکڑ لیا تو بطلبِ امان و خوفِ جان رام رام([2]) کا نعرہ مارنے لگے تاکہ یہ لوگ ہمیں اپنا ہم زبان سمجھ کر رحم کھائیں۔ اگر چہ یہ ایک دل خوش کن بات ہے لیکن ہم اسے اصل زبان کی ترقی نہیں کہہ سکتے۔ اصل زبان وہی ہے جس کا ہمیں پیٹنا پڑ رہا ہے:

گلیوں میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا


افسانہ محبت مشہور ہے ہمارا

اب اگر اہل زبان کو افسوس ہے تو صرف اس بات کا ہے کہ ہائے وہ لچیلی اور چوچلے کی باتیں، وہ موقع موقع کی آن و انداز کی گھاتیں، وہ ثقایانہ گفتگو، وہ مہذبانہ بات چیت، وہ بے تکلفانہ رمز و کنایہ، وہ ذو معنی ظریفانہ صلواتیں، وہ سپاہیانہ اکڑ فوں، وہ خادمانہ و خُردانہ آداب و انکسار، وہ شریفانہ برتاؤ، وہ لچھے دار فقرے، وہ دلچسپ و دلکش تحریر، وہ مربیانہ حسن اخلاق، وہ محبّانہ میل جول، وہ برادرانہ ربط و ضبط، وہ متحدانہ رسم و رواج، وہ مروت اور وہ آنکھ کا لحاظ اب کہاں۔ مجلسوں، محفلوں کے طریقے کچھ سے کچھ ہو گئے۔ تفریحانہ جلسوں کے ڈھنگ مغربی رنگ آمیزی سے دنگ کرنے لگے۔ شاہی آداب، درباری قواعد آزادی سے بالکل بدل گئے۔ اخیر شاہی زمانہ میں کانوں پر ہاتھ رکھنا ایک درباری سلام تھا۔ مگر اب نئی پود اس معلومات سے کانوں پر ہاتھ رکھتی اور دوسروں کا سلام ایک انگلی سے لیتی ہے۔ سیر سپٹّوں، میلوں ٹھیلوں، دیسی کرتبوں اور تماشوں نے اب دوسرا رنگ پکڑا۔ ڈراموں، ناولوں نے اپنا رنگ جمایا۔ تھیٹروں نے سوانگوں اور جھانکیوں کا قصہ مٹا دیا۔ اشراف گردی، اجلاف پروری، کمینہ پرستی نے بھلے مانسوں کو گھر بٹھا دیا۔ ہاتھی نشینوں، پالکی نشینوں کو خانہ نشین و خلوت گزیں بنا دیا۔ مفلسی و ناداری نے رذالوں کے آگے سر جُھکوا دیا۔ موری کی اینٹ کو چو بارے چڑھا دیا۔ مغربی علوم و فنون نے کم ظرفوں، پست حالت سُبک سروں کو وہ اوج بخشا کہ آسمان سے باتیں کرنے لگے:

یہ اوج حرفہ گزینی میں کسب نے بخشا


کرے ہے خاک مری آسمان سے باتیں

دولت پھٹ پڑی، عزت ٹوٹ پڑی، حکام رَسی ہاتھ آئی، کرسی نشینی و خطابات کی بھرمار نے آپے سے باہر کر دیا۔ جو بات چاہی، بَن آئی۔ من مانی مراد پائی۔

مشرقی علوم و فنون نے اپنی بے قدری و کساد بازاری دیکھ کر عہد عتیق کو بھلا دیا۔ گویا مغربی علوم کی چڑھتی کمان دیکھ کر اپنے آپ کو رہا سہا مٹا دیا۔ اخلاقی پستی سر پر چڑھ گئی۔ ہمت کے ساتھ حمیت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ غیرت رہی نہ شرم، دل کے نرم، کم ہمتی کے سرگرم بندے بن گئے۔ قانونی کوڑے، دھڑے بندی کے شکنجہ نے سارا تیہا مٹا کر ایسا بزدل بنا دیا کہ بچوں کی گستاخیوں پر بھی شریف کان نہیں ہلا سکتے۔