مرقع زبان و بیان دہلی/گئی گزری سلطنت کے شاہی کھیل تماشے
گئی گزری سلطنت کے شاہی کھیل تماشے
جہاں ہم نے 1857ء سے پیشتر کی زبان اور سرزمین دہلی کی خاصیتیں، تاثیریں، باشندوں کی خدا داد طبیعتیں، جودتیں، ایجاد و اختراع کی قوتیں دکھائی ہیں، وہاں بطور یادگار یہ بھی کانوں میں ڈال دینا ضرور ہے کہ یہاں کے گئے گزرے بادشاہوں میں اخیر دم تک کس کس بات کی ہوس باقی تھی اور کون کون سے خاندانی اثر اُن کے رگ و ریشہ میں دوڑتے پھرتے تھے۔
خاندانی سلطنت کے آداب و قاعدے، سواری، شکاری کے طریقے، دربار خاص و عام کے قرینے، روز مرہ کے برتاوے، نیاز نذروں کے ڈھنگ، سیر تماشوں کے رنگ بقدر معلومات مختلف موقعوں پر دکھا دیے۔ اب خاتمہ پر ان کے دل بہلاوے لکھ دینا بھی خالی از لطف نہیں۔
جنگ و جدل کے خیال، انسانی قربانیوں، ملک ستانیوں کے چاؤ، خونی فواروں اور پچکاریوں کی ہوس تو انھوں نے دل سے بھلا دی تھی۔ کیونکہ سرکار انگریزی کی امن پسند سلطنت کی بدولت ملک کی حفاظت، امن و امان کا قیام ایسا تھا کہ نہ فوج کی ضرورت تھی نہ سامانِ جنگ کی۔ اس کی بجائے کبوتر بازی، پتنگ بازی، بٹیر بازی، مرغ بازی، سبزوار مرغیوں کے انڈوں کی بیضوی جنگ اختیار کر لی تھی۔ مرغ بازی، تیتر بازی، بلبل بازی، دنبہ بازی وغیرہ۔ کبھی کبھی اپنے بزرگوں کی طرح باہم ہاتھیوں کی لڑائی، ہاتھیوں اور بگھیلوں کی ہاتھا پائی۔ چیتوں کا شکار دل میں چٹکیاں لیتا تھا تو ٹائیں ٹوئیں یہ تماشا بھی نظر آجاتا تھا۔ لیکن وہ رونق، وہ دھوم دھام کہاں جو ان کے بڑوں کو حاصل تھی۔ البتہ اپنا جی ضرور بہلا لیتے تھے۔ لیجیے اب اخیر زمانہ کے اس تھیٹر کے پردے کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ہاتھیوں کی لڑائی
جب ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق اچھلتا تو دریا کی ریتی میں زیرِ جھروکوں دریا کے ریتے کا ایک بڑا سا پشتہ باندھا جاتا۔ آمنے سامنے دو جنگی ہاتھی جو لڑائی کے لیے تیار کیے جاتے تھے، وہاں لاکر کھڑے کر دیے جاتے۔ اس وقت باندار چرخیاں اور بان، فیلبان بھالے اور برچھے لے کے، سانٹ مار چست کپڑا پہن کے سانٹے ہاتھوں میں لیے ہاتھیوں کے ارد گرد کھڑے ہو جاتے۔ سانٹ مار ہاتھیوں کو چمکا اور گرما دیتے۔ ان میں سے ایک نہ ایک پھرتی کر کے ہاتھی کے پیٹ کے تلے سے نکل جاتا۔ ہاتھی جھنجھلا کر اس کا رخ کرتا۔ دوسرا سانٹ مار پینترا کاٹ ہاتھی کے برابر آجاتا۔ ہاتھی اس کی طرف مڑتا، تیسرا لپک کے ہاتھی کے آگے سے نکل جاتا۔ ہاتھی اس پر دوڑتا، وہ کاوا دے پیچھے آجاتا۔ جب ہاتھی خوب گرما جاتے تو پہلے سونڈیں ملا کر زور کرتے۔ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا، مستکیں ملا کے وہ اسے ریلتا اور یہ اسے دھکیلتا اور رگیدتا۔ ان میں جو دل کا بودا ہوتا، دوسرے کا زور اور ٹکّر سنبھال نہ سکتا تھا۔ چنگھاڑ مار کر پیچھے ہٹ جاتا۔ دوسرا شیر ہو کر اس پر دوڑتا۔ فیلبان بھالے لے لے کر دوڑتے۔ دونوں کا بیچ بچاؤ کر، ہٹا ہٹو پرے لے جاتے اور یہ کہتے جاتے کہ دیو صفت بہادرو چلو غصہ تھوک دو۔ تم تو وہ کالے پہاڑ ہو کہ تم سے رستم بھی ٹکر نہیں لے سکتا ۔یہ تو دو پہلوانوں کا کمالہ تھا ۔جنگ زرگری کی ہار جیت اور مار پیٹ کیا ۔یہ بھی مردوں مردوں کی ایک جھڑپ تھی جو بادشاہ سلامت کے خوش کرنے کو دکھا دی گئی۔
ہاتھی اور بگھیلے کی لڑائی بادشاہ کے کلام کا عام شوق
اسی طرح ایک روز بادشاہ کے دل میں یہ اُمنگ اٹھی کہ اب تو ہاتھی اور بگھیلے(١٩) کی لڑائی دیکھے بہت دن ہوئے۔میر شکار کو بلاکر حکم دیا کہ کل ہاتھی اور بگھیلے کی لڑائی کا تماشا دیکھا جائے گا، ضروری انتظام کر لو۔دہلی کی یہ مثل مشہور ہے کہ ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑی اور خاص کر بادشاہ کی بات کہ اس کے واسطے در و دیوار، ہرےسوکھے روکھ، رنگ برنگ کے پکھیرو، چرند، پرند، ہوا کے جھونکے سب تار کا کام دیتے ہیں۔ میر شکار شاہی شکار خانہ تک نہیں پہنچا تھا کہ تمام قلعے اور سارے شہر میں اس لڑائی کی خبر پہنچ گئی۔ سیلانی جیوڑے تماشائی صبح سے پوشاکوں کو درست کرنے لگے۔ ہر ایک سیلانی یہی جانتا تھا کہ بادشاہ کی سب سے پہلی نظر ہماری ہی پوشاک پر پڑے گی۔ خوب بن ٹھن کر تماشا دیکھنے آئے۔ دہلی میں بہادر شاہ کی ہر ایک چیز اور ہر ایک بات اس قدر مرغوب تھی کہ اِدھر بادشاہ سلامت کے منہ سے کوئی بات نکلی، اُدھر شہر کے ایک ایک گلی کوچے میں اس کا چرچا ہو گیا۔ مثلاً بادشاہ نے کوئی غزل، ٹھمری، ٹپّہ، ہولی یا بسنت کہہ کر میر منشی کے حوالے کی اور وہ صبح ہی سے ایک ایک راہ گیر، چھوٹے چھوٹے بچے، بڑے بڑے خوش گلو گاتے ہوئے پھرتے نظر آئے۔ گائنیں بھی اسی تاک میں رہتی تھیں۔ ڈوم ڈھاریوں کو دوڑایا، وہ یاد کر کے لائے اور تھوڑی ہی دیر میں نوکِ زبان کر کے مجرے کی جما دی۔
بادشاہی غزلیں سب سے پیشتر ٹرمونہی خانم کو دی جاتی تھیں۔وہ فن موسیقی میں ید طولیٰ رکھتی اور ٹیڑھے منہ سے گا کر بڑے بڑے گویّوں کو سیدھا کر دیتی تھی۔ جس وقت وہ شاہی محل کے صحن میں چاندنی رات کو الاپتی تو اس کی آواز شاہدرہ، نونی، میراں شاہ عبداللہ اور بہٹے میں اس طرح لوگ سن لیتے کہ گویا اسی جگہ گا رہی ہے۔ غدر کے بعد اپنا بنا گھر اجاڑ کر بی ٹِرمونہی خانم درگاہِ حضرت خواجہ نظام الدین میں آ کر رہیں۔ حضرت سے ان کو کمال عقیدت تھی۔ روز صبح کو درگاہ شریف میں تشریف لاتیں۔ کبھی ساز کے ساتھ، کبھی بغیر ساز ہی دو چار چیزیں حضرت کے مزار مبارک کی نذر کر جاتیں۔ اگر بہادر شاہ کا کوئی ٹپّہ گایا تو شوری ٹپّہ گر کی روح کو خوش کر دیا۔ ٹپہ کا گانا کچھ آسان کام نہیں۔ اس میں آدمی کا سینہ شق ہو جاتا اور ٹپّہ کے شور میں سب کی آوازیں پست پڑ جاتی ہیں۔ کسی ٹھمری کی لَے اٹھائی تو حسینی پیا، سند پیا، پُھلرنگ، خوش رنگ، سدا رنگ اور قدر وغیرہ کو اپنے شوق رنگ کا ادنیٰ چیلا ثابت کر دیا۔ خالص پنجابی ہندی بھاکا، دوہے، ہولیاں، صوفیانہ رنگ میں رنگی ہوئی چیزیں خوب ادا کرتی تھی۔ دُھرپد، ترانہ بھی خوب گاتی تھی۔ اس کو بادشاہ کی بہت سی ایسی غزلیں یاد تھیں کہ وہ چاروں دیوانوں میں نہیں ہیں۔ چنانچہ ایک مصرع اور ایک شعر اس وقت ہماری زبان پر آ گیا ؏
بغض اچھا ہے کسی سے نہ عداوت اچھی
شعر:
اس زمانے میں ظفر ہم سے اگر سچ پوچھو
اپنا گھر اچھا ہے آپ اچھے قناعت اچھی
مرزا شاہرخ والی محبوبن گو بادشاہی طوائفوں میں داخل نہ تھی مگر اس کا گانا قابلِ تعریف تھا۔ ضامن علی شاہ ضامنؔ، صابری چشتی متخلص بہ ضامن سہارنپوری اس کے پیر تھے۔ اس سبب سے صابری رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اساتذہ فارسی کا منتخب کلام بھی اسے خوب یاد تھا۔ سعدی، حافظ، جامی، مغربی، خسرو وغیرہ کی فارسی غزلیں؛ ظفر، داغ، ذوق، مومن، غالب، معروف وغیرہ کی اردو غزلیں اس انداز سے ادا کرتی تھی کہ غزل کی صورت باندھ دیتی تھی۔ ضامن کی غزلوں اور ان کے سات سمندر کی وہ خود عاشق تھی۔ پہلے اس کا نام نصیبن تھا۔ آواز کی مقبولیت کے سبب محبوبن ہو گیا۔ در اصل مرزا شاہ رخ شہزادۂ دہلی کی خانہ زاد تھی۔ انھوں نے اسے خوش الحان و خوش آواز دیکھ کر نامی گویوں سے تعلیم دلوائی تھی۔آواز میں یہ تاثیر تھی کہ کیسا ہی غل شور مچ رہا ہو، جہاں محبوبن نے سُر نکالا اور سب کو سانپ سونگھ گیا۔ شہر خاموشاں کا عالم اور سنسان نظر آنے لگا، پھر واہ واہ کی داد ملنے لگی۔ گو اب بڑھیا ہو گئی تھی، مگر اسے آگرہ والی مُنّی سے جو بھڑا دیا تو یہ بوڑھا پہلوان کُشتی جیت کر اٹھا۔ در حقیقت وہ کسبی نہ تھی۔ بہت بڑی شائستہ، نستعلیق، سلیقہ شعار، مردم شناس، صاحب حال و قال گویا بظاہر طوائف تھی۔ اس کی گفتگو میں رس تھا، دل دردمند تھا، مزاج حق شناس و حق پسند ۔ مخیر بھی تھی، خدا ترس بھی تھی۔ دو چار راگ پسند بوڑھے اس کے دروازے پر پڑے بھی رہتے تھے۔
غرض ہاتھی اور بگھیلے کی دھوم مچ گئی۔ تمام شہر کے لوگ صبح ہی سے ریتی میں جانے شروع ہو گئے۔ بادشاہی جھروکوں کے نیچے دریا کی ریتی میں بادشاہ کی طرف سے تماشائیوں کے بند و بست، ان کی حفاظت کے لیے نجیب، سپاہی، تلنگے اور بہت سے سوار کھڑے ہو گئے تاکہ کوئی جھپٹ میں نہ آجائے۔ میدان کے دُھر بیچ میں فیلبان ہاتھی کو لے کر آئے۔ ہاتھی جھومتا جھامتا، مستانہ چال سے اٹکھیلیاں کرتا ہوا ان کے ساتھ آیا۔ ارد گرد بھالے بردار، بان بردار گویا اس کے خیر مقدم میں کھڑے ہو گئے۔ شکاری بگھیلے کو ہاتھی کے سامنے لائے۔ اس کی رسیاں کھول دیں۔ بگھیلے نے کھلتے ہی ہاتھی پر حربہ کیا۔ ہاتھی نے داؤں بچا کر اس کا وار خالی دیا، بگھیلا جھنجھلا کے ہاتھی پر جھپٹا۔ سُرتے ہاتھی نے کترائی دی۔ پھرتی سے اسے سونڈ میں لپیٹ لیا۔ دونوں پاؤں کے نیچے دبا کے سونڈ سے اٹھا پرے پھینک دیا۔ جونہی ہاتھی پیچھے ہٹا، بگھیلا لوٹ پیٹ کر کھڑا ہو گیا اور کلانچیں مارتا ہوا جھروکوں کی طرف آیا۔ ساری خلقت ڈر کے مارے بِھرّی ہو گئی اور سر پر پاؤں رکھ کر گڑھے گڑھولوں میں جا چھپی۔ کچھ آدمی دریا میں کود پھاند اتر گئے۔ چھوٹی عمر کے بچے تتیری ہو گئے۔ سارا میدان ہو کا مکان بن گیا۔میر فتح علی جو بادشاہ کے جنگلی وزیر کہلاتے تھے، دو نالی بندوق ہاتھ میں لیے ڈٹے رہے۔ اپنی جگہ سے نہ سرکے۔ وہی کہاوت کر دکھائی “قطب جنبد نہ جنبد گل محمد”۔ دور سے گولی بھی نہ چٹخا سکے کہ خلقت چاروں طرف چھپی چھپائی پڑی ہے، کوئی نشانہ نہ بن جائے۔ بگھیلا میر صاحب کو بت بنا کھڑا دیکھ کر انھیں پر لپکا۔ میر صاحب نے اس کے گولی ماری مگر وہ خالی گئی۔ اس بات سے بگھیلا بھبک کر غراتا ہوا ان پر دوڑا۔ میر صاحب نے دوسری گولی اور سرکی ، وہ بھی زمین میں دھس گئی۔ بگھیلے کے ایک بھی نہ لگی۔ بگھیلے نے آتے ہی حملہ کر کے میر صاحب کو پنجوں سے گرا دیا۔ یہ دیکھتے ہی شکاری، بہلیے، پھندیت دوڑ پڑے اور اس موذی کو جوں توں پکڑ کے باندھا۔
میر فتح علی کو بادشاہی ملازم اٹھا اٹھو کر ان کی قیام گاہ میں زیر جھروکوں لے آئے۔ پنجوں کا خفیف سا زخم آیا تھا۔ لیکن صدمہ سے بیہوش ہو گئے تھے۔ بادشاہی حکیم، طبیب، جراح، فوراً آ موجود ہوئے۔ دوا درمن کر کے ہوش میں لائے۔ زخم پر مرہم پٹی باندھ بوند چند روز میں اچھا بچھا کر دیا۔ ان کی اس ثابت قدمی اور جانبازی سے تمام قلعہ و شہر میں واہ واہ ہو گئی۔ بادشاہ کے ہاں بھی قدر و منزلت بڑھی۔
بادشاہ کے سامنے چیتے اور ہرن کا شکار
بہلیے اور شکاری ہرن وغیرہ جنگل میں سے گھیر گھار کر لائے۔ چیتے والوں نے چیتے کی آنکھوں پر سے ٹوپی اتار کے ان کی طرف چھوڑ دیا۔ چیتے نے داؤں گھات لگا کے ایک آدھ کو دبوچ لیا۔چیتے والے دوڑے۔ چیتے کو پنیر وغیرہ کی چاٹ چٹا کے اس کی پیٹھ اور دم پر ہاتھ پھیرا۔ اور پیار چمکار کے اس سے شکار چھڑا حلال کیا۔
ایک دن اسی طرح بادشاہ کے سامنے چیتی کو شکار پر چھوڑا۔ جوں ہی چیتی نے دبک کر گھات لگائی، ہرن چوکنا ہو گیا اور چوکڑی بھرتا ہوا ایسا بھاگا کہ نظروں سے غائب غُلّہ ہو گیا، پھر نہ دکھائی دیا۔ چیتی شکار کے ہاتھ نہ آنے سے جھونجل میں آ کر اُلٹی پھری۔ خلقت جو تماشا دیکھ رہی تھی، ڈر کے مارے تِتّر بتّر ہو گئی۔ مگر شاہ صمد خاں جو سمند خان مشہور تھے، جوان، قوی ہیکل، خوشرو، بڑے دل چلے، بادشاہی رسالدار تھے۔ ایسے وقت میں طرح دے کر بادشاہ کے سامنے سے ہٹ جانا حقارت اور تُھرڈلی سمجھے۔ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ وہیں جمے کھڑے رہے۔ چیتی بھبھک کر ان پر آئی۔ وہ نہتّے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کوئی لکڑی تھی نہ ہتھیار جو اس پر وار کرتے۔ صرف اوسان ان کے ہتھیار بن گئے اور وہی اس وقت کام آئے۔ انھوں نے پیترا بدل اس کا وار خالی دیا۔ سپاہیانہ پیچ کر ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ، دوسرے ہاتھ سے اس کا ٹیٹوا دبا سر پر سے چکر دے زمین پر دے مارا۔ تمام لوگوں میں ان کی دلاوری کا شہرہ ہو گیا اور بہت سی واہ واہ ہوئی۔ بادشاہ نے خوشنود ہو کے معزز و ممتاز فرمایا۔
بٹیر بازی
جہاں اساڑھ کا مہینہ شروع ہوا، باغوں میں بٹیریں پکڑنے کے جال لگائے گئے۔ باغوں کے مکان اور بارہ دری فرش فروش سے سجائی گئی۔ شوقین شہزادے مع سامان، نوکر چاکر وغیرہ وہاں جا رہے۔ پلی ہوئی بٹیروں کو جال دار تھیلیوں میں برابر برابر بانس میں باندھ کے اونچی بلیوں میں لٹکا دیا۔ رات بھر بٹیروں کی آواز پر بٹیر گرتے رہے۔ فجر ہی منہ اندھیرے شاہزادے نوکروں اور مصاحبوں کو لے کے بٹیروں کی گھِرائی کو اٹھے۔ باغ میں چاروں طرف آدمیوں کو پھیلا کے بٹھایا۔ رسان رسان ہاتھوں سے تھپکی لگا کے سب طرف سے بٹیروں کو گھیر کے جال کی طرف لے گئے۔ جب بٹیر جال میں پہنچ گئے، جلدی سے جال کے بندھن جو بلّیوں میں بندھے ہوئے تھے کھول کے جال گرا دیا۔ جتنے بٹیر جال میں پھنس گئے پکڑ لیا۔ نروں کو کابکوں میں رکھا۔ مادینوں کو حلال کر کے کھا لیا۔ نئے پکڑے ہوئے بٹیروں کو دونوں مٹھیوں میں پکڑ کے مونٹھیں کیں،ان کی چمک نکالی۔ رات کو مونٹھیں کر کے بٹیروں کے کانوں میں کو کا اور جگایا۔ ماشوں سے ناپ تول کر دانہ پانی انھیں دیا جس سے ہلکے پھلکے، چست چالاک رہیں۔ بھدّے اور مست نہ ہو جائیں۔ جب بٹیر لڑائی کے لیے تیار کر لیے اور خوب آزما لیے تو آپس میں صیدیوں سے لڑائے۔ بھروسے کے بٹیروں کو مشک، زعفران میں رنگ رنگا کر بادشاہ کے سامنے جا لڑایا۔ لڑتے لڑتے جس کا بٹیر بھاگا وہ فق رہ گیا، جس کا بٹیر بازی جیتا اس نے شور مچایا “وہ مارا بھگا دیا”۔ ہار جیت کے اپنے گھر آئے۔ بازی جیتے ہوئے بٹیروں کے پاؤں میں چاندی کی کڑیاں ڈال دیں۔ جب تک موسم رہا آپس میں لڑاتے رہے۔ جب موسم نکل گیا، بٹیر بازوں کے حوالہ کیا کہ ان کے ہر موسم کا رکھ رکھاؤ اور دانہ پانی کی خبر گیری کرتے رہیں۔ گرمیوں میں دودھ نان پاؤ، جاڑوں میں کنگنی وغیرہ ملتی رہے۔ اب جب موسم آئے گا پھر اسی طرح پکڑیں گے اور لڑائیں گے۔
کبوتر بازی
گردان اڑان کبوتروں کے ساتھ(٢٠) کے ساتھ رنگ برنگ کے دو ڈھائی تین سو کے، کوئی زرد پٹیتوں(٢١) کا، کوئی کالے پٹیتوں کا، کوئی کالے سبز مُکھی وغیرہ کا۔ ہر ایک ساتھ ایک ایک رنگ کا تھا۔ جب بادشاہ کو کبوتروں کی سیر دیکھنی منظور ہوتی تھی، کبوتر باز بھڑیاں(٢٢) اور تاوے(٢٣) دے کر دو چار ہوائیں بادشاہ کے سامنے دے دیتے تھے۔ ایک کبوتروں کا ساتھ(٢٤) ایسا گردان تھا کہ کبوتر باز نے قلعہ سے اڑایا اور چھیپی سے اشارہ شاہدرہ کی طرف کر دیا، وہ سیدھے شاہدرہ پہنچے۔ وہاں سے دانہ کھلا کر کبوتر باز نے اڑا کے چھیپی سے قلعہ کی طرف ہانک دیا اور زفیلنا(٢٥) شروع کیا، وہ سیدھے قلعہ میں چلے آئے۔ ایک کبوتروں کا ساتھ بادشاہ کی جلوسی سواری کے ہمراہ ایک کاٹھ کے ہاتھی میں جس پر کاٹھ ہی کا ہودہ بھی ہوتا تھا، عید گاہ میں جاکر کبوتر باز ہاتھی کی پیٹھ کی کھڑکی کھول کر کبوتروں کو نکالتا۔ کبوتر ہاتھی کے اوپر ہودے میں جسے قُلقُل کہنا چاہیے، جا بیٹھتے۔ کبوتر باز دو چار ہوائیں اڑاتا اور پھر اسی ہودے میں بند کر دیتا۔
بیضہ بازی یعنی سبز وار مرغیوں کے انڈوں کی لڑائی
شہزادوں نے اچھی نسل کی سبزوار(٢٦) مرغیاں بڑی تلاش و جستجو سے منگوا کے ان کے انڈے بٹھا کے بچے نکلوائے۔ مرغیوں کا رکھ رکھاؤ، کھول موند کی خبر گیری ایسی ہوتی تھی کہ وقت پر کھولا، پھر اپنے سامنے ہی انھیں پھرایا، چلایا، دانہ پانی دے کے کھانچوں میں بند کر دیا۔ مرغوں کو بادام، مرغیوں کو گوشت کی بوٹیاں وغیرہ کھلاتے کہ انڈے مضبوط ہوں۔ انڈوں کی بڑی نگہبانی ہوتی تھی۔ کوئی انڈا چوری نہ جائے تاکہ اور جائے نسل نہ پھیلنے پائے۔ ان کے انڈے ایسے مضبوط اور نوک دار ہوتے تھے کہ چین کی مرغیوں تک کے انڈے توڑ ڈالتے تھے۔ نوروز کے موقع پر وہ انڈے دیتی تھیں۔ چنے برابر انڈوں پر نیش ہوتا تھا۔ ہر منگل کو صیدی آپس میں لڑاتے تھے۔ نوروز کے دن شاہزادے انڈوں کو مشک و زعفران سے رنگ رنگا کے حضور میں لاتے اور لڑاتے تھے۔
سبز وار مرغیوں کا حلیہ یہ ہے: حلق کے نیچے سرخ گوشت اور رنگ برنگ کے پر ہوتے ہیں۔ دیوانِ خاص میں بادشاہ کے سامنے انڈے لڑانے آتےاور محل میں اپنے آنے کی اطلاع کراتے۔ جسولنی آواز دیتی تھی کہ خبردار ہو؛ نقیب، چوبدار پکارتا تھا کہ اللہ رسول خبردار۔ بادشاہ خاصی ڈیوڑھی سے برآمد ہوتے۔ نقیب اور چوبدار آواز لگاتے کہ “اللہ کی امان، دوست شاد دشمن پائمال، کرو مجرا جہاں پناہ سلامت”۔ بادشاہ مسند پر آکر بیٹھتے۔سب مجرا کرتے۔ شاہزادے مسند کے ارد گرد بیٹھ جاتے اور سب اہالی موالی ادب سے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ صیدی پانچ پانچ چھٹے ہوئے مضبوط انڈے نکالتے۔ کوئی صیدی ایک انڈا مٹھی میں اس طرح بند کر لیتا کہ فقط نیش کھُلا رہے۔ دوسرا اوپر سے انڈے کے نیش سے انڈے کے نیش پر چوٹیں لگاتا۔ جو انڈا توڑتا وہ خوش ہو کر پکارتا، وہ توڑا۔ جس کا انڈا ٹوٹ جاتا وہ خفیف ہو جاتا۔ اس طرح بادشاہ کے سامنے پانچ پانچ انڈے لڑا کے ہار جیت کا فیصلہ کرتے۔ بادشاہ محل میں داخل ہوتے۔
پتنگ بازی اور قلعہ کے متعلق ذکر
عصر کے وقت پتنگ باز بڑے بڑے پتنگ، ڈور کی چرخیاں لے کے سلیم گڈھ میں پہنچے۔ بادشاہ کی سواری آئی۔ ایک طرف بادشاہی پتنگ بازوں نے دریا کی طرف پتنگ بڑھایا، دوسری طرف معین الملک نظارت خاں بادشاہی ناظر کا پتنگ اٹھا۔ دریا کی ریتی میں سوار کھڑے ہو گئے۔پیچ لڑے، ڈھیلیں چلیں، پتنگ ڈوبتے ڈوبتے آسمان سے جا لگے۔ پیٹا چھوڑ دیا، ڈور زمین سے لگ گئی۔ سواروں نے آنکڑے دار لکڑی سے ہاتھوں میں لے لی، آخر ایک پتنگ کٹ گیا۔ ہوا سے جھوکے اور تھپیڑیں کھاتا ہوا دریا کے پار جا گرا۔ بادشاہ سیر دیکھتے رہے۔ جی میں آیا تو تخت رواں سے اترے ۔ پتنگ بازوں نے مچھلی کے چھلکوں کے دستانے بادشاہ کے ہاتھوں میں پہنا دیے۔ بادشاہ نے پتنگ ہاتھ میں لیا۔ ایک آدھ پیچ لڑایا۔ پتنگ بازی کی سیر دیکھ کر بادشاہ محل معلّے میں داخل ہوئے۔
بادشاہی پتنگ بازی میں پتنگ اور تکّل قد آدم ہوتی تھی۔ بعض اوقات لوہے کے تار پر بھی اڑاتے تھے۔ بادشاہی حریفوں یا صیدیوں میں مرزا یاور بخت بہت مشہور تھے۔ ان کی برابر کوئی نہیں لڑا سکتا تھا۔ لطف یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کا پتنگ بہت کم کٹتا تھا اور کاٹنے میں سب سے زیادہ زبردست رہتا تھا۔ یہ اپنے ہاتھ سے آپ ہی پتنگ بناتے، آپ ہی ڈور تیار کرتے اور آپ ہی لڑاتے تھے۔ مرزا یاور کا سا سُدھ پتنگ کم دیکھنے میں آیا ہے۔ غدر کے بعد بھی مرزا یاور نے پتنگ بازی میں اپنی شہرت قائم رکھی۔ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی دہلی کے پاپڑ والے سکھ بھی پاپڑ بیل کر کچھ چندہ جمع کرتے اور بادشاہی پتنگ بازی میں جھروکوں کے نیچے ریتی میں جا کر پانچویں سواروں میں شامل ہو جاتے تھے۔ یقین ہے ان کے پاپڑی پتنگوں کا رنگ بھی پاپڑ سا زرد اور ڈور بھی بسنتی ہوتی ہوگی، لباس بھی زرد ہو تو عجب نہیں۔ تیلیا کاغذ بھی بھیگنے سے بچا رہتا ہوگا۔ ادھر بوند پڑتی ادھر ڈھل جاتی ہوگی۔ دھیری پکارنے کی نوبت ہی نہ آتی ہوگی۔
پہلے بڑے بڑے پتنگ، تکّلیں، کنکوّے، رنگین اور سادے بازاروں میں بکتے تھے۔ بعض شوقین اپنے ہاتھ سے بڑی بڑی کاریگری ان میں کر کے بناتے تھے۔ کنکوّا، دوباز، دو پنّا، کانڑا، دو پلکہ، چِڑا، پریوں دار، ککُدما، لکُدما، بگلہ وغیرہ تکّلیں لنگوٹ دار، کلیجہ جلی وغیرہ وغیرہ بنا کے ان میں اپنی کاریگری دکھاتے۔ ڈور ایک بَلی، دو بَلی،تِبَلی، چوبَلی، کنکوّوں، تکّلوں کے زور کے موافق مانجھا سونت کے بڑے بڑے پِنڈے، گولے خوبصورت بناتے یا چرخیوں پر چڑھاتے۔ اس پر پتنگ، تکّلیں، کنکوّے اڑاتے اور لڑاتے یا نَخ پر مانجھا سونت کے ڈور کا کام لیتے۔ بچے بالے پیسہ، دھیلچیہ، دمڑچیہ، کنکوّے، چھوٹیتِنّخیں ایک بَلی ڈور پر اڑاتے پھرتے۔ وہ پہلی سی ڈوریں، نخ، پتنگ، تکّلیں، کنکوّے سب اڑ گئے۔ اب لنڈورے، کنکوّے بن پنچھلّے کے جنھیں گڈّی کہتے ہیں، انگریزی موٹے ریل کی ڈور پر مانجھا سونت کر کنکوّے بازی ہوتی ہے۔