مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
Appearance
مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
کہیں جڑتی ہے پھر کہیں ٹوٹتی ہے
یہ خو ہے تمہاری تو کیوں کر بنے گی
ادھر بنتی ہے تو ادھر ٹوٹتی ہے
نہ ہم پر ہنسو حال ہوتا ہے یہ ہی
مصیبت جو انسان پر ٹوٹتی ہے
سمجھتا ہوں کچھ میں بھی باتیں تمہاری
یہ ہر طعن کیا غیر پر ٹوٹتی ہے
خدا کے لیے پھر تو ایسا نہ کہنا
مری آس اے نامہ بر ٹوٹتی ہے
یہاں جس کے بے دیکھے جی ٹوٹتا ہے
وہاں اس کی ہر دم نظر ٹوٹتی ہے
غضب ہاتھاپائی کا ہے لطف ہوتا
کوئی ان کی چوڑی اگر ٹوٹتی ہے
عدو کا بھی تو گھر ہے اے چرخ ظالم
جو آفت ہے میرے ہی گھر ٹوٹتی ہے
تری بات کا کیا ہے عنوان قاصد
توقع ہماری مگر ٹوٹتی ہے
یہ غم ہے تو رونا بھی اپنا یہی ہے
یہ رونا ہے تو چشم تر ٹوٹتی ہے
یہ کہنا نظامؔ اب تو سونے دے مجھ کو
کوئی بیٹھے کب تک کمر ٹوٹتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |