مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
Appearance
مری نگاہ کہاں دید حسن یار کہاں
ہو اعتبار تو پھر تاب انتظار کہاں
دلوں میں فرق ہوا جب تو چاہ پیار کہاں
چمن چمن ہی نہیں آئے گی بہار کہاں
جسے یہ کہہ کے وہ ہنس دیں کہ قصہ اچھا ہے
وہ راز کھل کے بھی ہوتا ہے آشکار کہاں
امنگ تھی یہ جوانی کی یا کوئی آندھی
ملا کے خاک میں ہم کو گئی بہار کہاں
امیدوار بنانے سے مدعا کیا تھا
جب آس تم نے دلا دی تو اب قرار کہاں
ملی ہے اس لیے دو چار دن کی آزادی
کہ صرف کرتا ہے دیکھیں یہ اختیار کہاں
یہ شوق لے کے چلا ہے چمن سے شکل نسیم
کہ دیکھیں ملتی ہے جاتی ہوئی بہار کہاں
ہے ایک شرط وفا کی وہ قید بے زنجیر
سب اختیار ہیں اور کچھ بھی اختیار کہاں
مٹے نشاں پہ نظر کر کے رو جسے چاہے
ترے ستم کی ہے تربت مرا مزار کہاں
تم ایسا عہد شکن آرزوؔ سا ناامید
کہو جو سچ بھی تو آتا ہے اعتبار کہاں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |