مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
Appearance
مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
مگر یہ دل نہیں یارو نگیں ہے
کمر پر تیری اس کا دل ہوا محو
ترا عاشق بہت باریک بیں ہے
جو کہیے اس کے حق میں کم ہے بے شک
پری ہے حور ہے روح الامیں ہے
غلام اس کے ہیں سارے اب سریجن
نگر میں حسن کے کرسی نشیں ہے
نہیں اب جگ میں ویسا اور پیتم
سبی خوش صورتاں سوں نازنیں ہے
مجھے ہے موشگافی میں مہارت
جو نت دل محو خط عنبریں ہے
نظر کر لطف کی اے شاہ خوباں
ترا فائزؔ غلام کم تریں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |