مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
نہ تجھے دماغ نگاہ ہے نہ کسی کو تاب جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
کسے نیند آتی ہے اے صنم ترے طاق ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہ بغل سر مرغ قبلہ نما نہیں
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیال دشمن و دوست ہے
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
یہ خلاف ہو گیا آسماں یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گل کھلے بھی تو بوند سے کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
مرض جدائی یار نے یہ بگاڑ دی ہے ہماری خو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غم ہجر یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں مرے حال پر جو ہنسا نہیں
مرے آگے اس کو فروغ ہو یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجوم جلوۂ یار ہے کہ چراغ خانہ کو جا نہیں
چلیں گو کہ سیکڑوں آندھیاں جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک
بھڑک اٹھے آتشؔ طور پھر کوئی اس طرح کی دوا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |