مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
Appearance
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
جو ہو سکے تو بہرحال مسکرائے جا
بہار صد چمنستان آرزو بن کر
مرے خیال کی رنگینیوں میں آئے جا
خرد نواز نگاہوں کی آڑ میں رہ کر
فضائے عالم دیوانگی پہ چھائے جا
پلائے جا کہ ابھی ہوش بے خودی ہے مجھے
پلائے جا مجھے ساقی ابھی پلائے جا
دل و جگر پہ گزر جائے گی جو گزرے گی
تری نظر سے جو فتنے اٹھیں اٹھائے جا
ذرا ٹھہر کہ اب انجام سوز غم ہے قریب
چراغ زیست بھڑکنے کو ہے بجھائے جا
سکوت میت فانیؔ ہے اک فسانۂ شوق
لب خموش سے ہر مدعا کو پائے جا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |