مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
نہیں بھی پہر دو پہر ہو گئی
ترے غم میں شب یوں بسر ہو گئی
غرض روتے روتے سحر ہو گئی
نہ آئینہ ہر وقت دیکھا کرو
کہوگے کسی کی نظر ہو گئی
جو باندھی کمر قتل عشاق پر
کمر تو نہ تھی پر کمر ہو گئی
سبب ان کی رنجش کا کہنا نہیں
کوئی پوچھے کس بات پر ہو گئی
لبوں پر ٹھہرنے سے اے جاں! حصول
ادھر آ گئی یا ادھر ہو گئی
کوئی بات الفت کی اب تو نہیں
جو کچھ ہو گئی پیشتر ہو گئی
ترا وعدہ گو جھوٹ ہی کیوں نہ ہو
تسلی ہماری مگر ہو گئی
تغافل ہے ہر بات پر کس لیے
مرے دل کی تجھ کو خبر ہو گئی
قیامت کے آثار بھی ہو گئے
شب غم دراز اس قدر ہو گئی
منانا رلانا ہی باہم رہا
شب وصل یوں ہی سحر ہو گئی
نہیں کیا کرو گے نہ ہم کو سناؤ
شکایت عدو کی مگر ہو گئی
خدا ہے جو اس بت سے پھر ہو ملاپ
غرض آج تو اس قدر ہو گئی
کہا بھی تو اس نے کچھ ایسا نہیں
ذرا بات میں چشم تر ہو گئی
نہ مانا نہ مانا اسی شوخ نے
کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو گئی
تمہیں ضد نہ ملنے کی ہے کس لیے
مری آہ کیا بے اثر ہو گئی
وہ وعدے سے کیوں پھر گئے کہہ تو کچھ
یہ کیا بات اے نامہ بر ہو گئی
یہ قسمت ہوا وصل بھی گر نصیب
تو رنجش بھی ہر بات پر ہو گئی
وہ آئے بھی یاں اس سے اے دل حصول
کوئی دم کو تسکیں اگر ہو گئی
ترے غم میں یہ حال تو ہو گیا
خوشی اب تری فتنہ گر ہو گئی
یہ جھوٹی محبت سے ان کی حصول
شکایت عدو کی اگر ہو گئی
انہیں صلح منظور ہے مجھ سے کب
کہوں کیا ہوئی کیونکہ پر ہو گئی
نظام اس گھڑی کا کہوں حال کیا
جب اس نے کہا وہ سحر ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |