Jump to content

مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ (I)

From Wikisource
مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314950مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

درویش جو ہیں مقصد دلخواہ کہیں ہیں
سالک جو ہیں وے راہبر راہ کہیں ہیں
اک واقف اسرار و دل آگاہ کہیں ہیں
اک چرخ حقیقت کا تجھے ماہ کہیں ہیں
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

مذکور کہیں نام ترا کام روا ہے
مشہور لقب ایک جگہ راہ نما ہے
ہر ایک نے کچھ حسب خرد اپنے کہا ہے
سمجھا نہ کوئی یہ کہ حقیقت میں تو کیا ہے
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

من بعد نبیؐ باعث بہبود تو ہی ہے
نزدیک خردمندوں کے مسجود تو ہی ہے
کچھ کوئی کہو خلق سے مقصود تو ہی ہے
پہنچیں جو حقیقت کو تو معبود تو ہی ہے
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

جس روز سے تو تھا نہ کوئی عرصے میں آیا
فتنے کو ترے شور نے تا حشر سلایا
بالفرض فلک سے بھی اگر ہاتھ ملایا
اک روز میں کر خاک برابر ہی دکھایا
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

اس بات کو جانیں ہیں سب آگاہ تہ کار
ایوبؑ نے جب نالہ کیا کھینچ کے آزار
قدرت نے کیا حق کی ترے پردے میں اظہار
صورت سے شفا کی تو ہوا آکے نمودار
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

آدم کی انابت تھی شب و روز تری اور
جپتے ہیں ملک نام ترا چرخ پہ کر شور
قائل ہیں ترے لے کے سلیمان سے تا مور
اللہ ری تری شوکت و احسنت ترا زور
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

ہستی میں ترا جلوہ ترا شور عدم میں
تیرا ہی تصرف ہے حدوث اور قدم میں
ہوتا نہ ترا دست حمایت کا جو یم میں
یونسؑ کی توقع نہ تھی ماہی کے شکم میں
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

پردے میں صدا تھی تری داؤد کا الحان
شمہ تھا تری چشم کا اک نوح کا طوفان
جاں بخش دم عیسوی میں تو ہی تھا پنہان
تھا ہاتھ ترا معجزۂ موسی عمران
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

یعقوب کا تھا کلبۂ احزاں میں تو غم خوار
یوسف کا ملک ہو کے ہوا چہ میں مددگار
رحمت کا فرشتہ ہو ترے لطف نے پر مار
کی آتش نمرود براہیم پہ گلزار
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

الٹا ہے دو انگشت سے دروازۂ خیبر
چیرا ہے کس انداز سے گہوارے میں اژدر
کیا ہاتھ تھا جس سے کہ گیا جان سے عنتر
ظاہر ہے کہ یاں تھا وہی ظاہر وہی مظہر
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

ثانی ترا پاتے نہیں تسلیم و رضا میں
ایوب سے ہو صبر ترا سا نہ بلا میں
مشہور سخاوت ہے تری شاہ و گدا میں
تیں خود کے تئیں بخش دیا راہ خدا میں
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

اے وہ کہ تو ہے جان و جہاں سارا ہے قالب
در پر جو اکٹھے ہوں ترے سینکڑوں طالب
اک پل میں روا کردے تو ان سب کے مطالب
ہم عاجز و عاجز ہیں تو ہے غالب و غالب
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں

ہے میرؔ پریشاں دل و آوارہ و مضطر
کیا تیری صفت کرسکے یا حیدر صفدر
ہے وصف ترا حیز امکان سے باہر
کہتے ہیں خردور تری قدرت کو نظر کر
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
سچے ہیں وہی لوگ جو اللہ کہیں ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.