مسدس در نعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
جرم کی کھو شرمگینی یا رسول
اور خاطر کی حزینی یا رسول
کھینچوں ہوں نقصان دینی یا رسول
تیری رحمت ہے یقینی یا رسول
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
لطف تیرا عام ہے کر مرحمت
ہے کرم سے تیرے چشم مکرمت
مجرم عاجز ہوں کر ٹک تقویت
تو ہے صاحب تجھ سے ہے یہ مسئلت
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
کیا سیہ کاری نے منھ کالا کیا
بات کرنے کا نہیں کچھ منھ رہا
رحم کر خاک مذلت سے اٹھا
میرے عفو جرم کی تخصیص کیا
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
اب ٹھہرتا ٹک نہیں پاے ثبات
دستگیری کر کہ پاؤں میں نجات
جرم کیا ہیں میری کتنی مشکلات
ہے کفایت ایک تیری التفات
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
دہر زیر سایۂ لطف عمیم
خلق سب وابستۂ خلق عظیم
تجھ سے جویاے کرم عاصم اثیم
سخت حاجت مند ہیں ہم تو کریم
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
ہو رہے ہیں ہم جو دوزخ کے حطب
سر پہ یہ اعمال لائے ہیں غضب
رکھتے ہیں چشم عنایت تجھ سے سب
تجھ سوا کس سے کہیں احوال اب
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
نیک و بد تیرے ثناخوان ہمم
لطف تیرا آرزوبخش امم
ملتفت ہو تو تو کاہے کا ہے غم
تو رحیم اور مستحق رحم ہم
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
روؤں ہوں شرم گنہ سے زار زار
بے عنایت کچھ نہیں اسلوب کار
دل کو جب ہوتا ہے آکر اضطرار
زیر لب کہتا ہوں یہ میں بار بار
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
سبز برپا ہوگا جب تیرا نشاں
آفتاب حشر میں بہر اماں
ہووے گی انواع خلقت جمع واں
کیوں نہ ہو سائے میں اس کے دوجہاں
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
روسیاہی جرم سے ہے بیشتر
روسفیدوں میں خجل مجھ کو نہ کر
ایک کیا آنکھیں ہیں میری ہی ادھر
تجھ سے راجی بے بصر اہل نظر
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
کچھ بھی جو ہیں واقف راز و نیاز
عام تجھ انعام پر کر چشم باز
شعر یہ مشہور سب وے دل گداز
پڑھتے ہیں جاے دعا بعد از نماز
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
جب تلک تاثیر کا تھا کچھ گماں
گہ قرآں خواں میرؔ تھے گہ سبحہ خواں
وقت یکساں تو نہیں اے دوستاں
اب یہی ہے ہر زماں ورد زباں
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |