مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
Appearance
مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
پابند یہ فقیر نہیں سنگ و خشت کا
سر سبز ہوں جو آپ دکھا دیجے خط سبز
کشتوں کو کھیت میں ابھی عالم ہو کشت کا
اس حور کی جو گلشن عارض کی یاد تھی
دیکھا کیا فراق میں عالم بہشت کا
کیا منشی ازل کی یہ صنعت ہے دیکھنا
ماہر نہیں کسی کی کوئی سر نوشت کا
نادان اعتراض ہے صانع پہ غور کر
بے جا ہے امتیاز یہاں خوب و زشت کا
اے برقؔ سیر کرتے ہیں ہم تو جہان کی
ہر کوچۂ صنم ہے نمونہ بہشت کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |