مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا
مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا
رہتا ہوں روز و شب میں اسی گھات میں لگا
محفل میں مضطرب سا جو دیکھا مجھے تو بس
کہنے کسی سے کچھ وہ اشارات میں لگا
ہوتے ہی وصل کچھ خفقاں سا اسے ہوا
دھڑکا یہ بے طرح کا ملاقات میں لگا
کل رات ہم سے اس نے تو پوچھی نہ بات بھی
غیروں کی یاں تلک وہ مدارات میں لگا
آیا ہے ابر گھر کے اب آنے میں ساقیا
تو بھی نہ دیر موسم برسات میں لگا
مسجد میں سر بہ سجدہ ہوئے ہم تو کیا کہ ہے
کم بخت دل تو بزم خرابات میں لگا
گھٹے پہ اپنے ماتھے کہ نازاں جو اب ہوئے
یہ داغ شیخ جی کے کرامات میں لگا
گر مجھ کو کارخانۂ تقدیر میں ہو دخل
روز قیام وصل کی دوں رات میں لگا
پرواز تا بہ عرش اگر تو نے کی تو کیا
صیاد مرگ ہے تری نت گھات میں لگا
وقت اخیر آئے ترے کام جو دلا
اب دھیان گیان اپنا اس اوقات میں لگا
جرأتؔ ہماری بات پہ آیا نہ یاں تو آہ
کیا جانیے کسی کی وہ کس بات میں لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |