Jump to content

معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا

From Wikisource
معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی
317624معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھامنشی نوبت رائے نظر لکھنوی

معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا
اس میکدے میں مست جو تھا ہوشیار تھا

تمہید تھی جنوں کی گریباں ہوا جو چاک
یعنی یہ خیر مقدم فصل بہار تھا

بننے لگے ہیں داغ ستارے خوشا نصیب
تاریک آسمان شب انتظار تھا

تھے زندگی کے ساتھ محبت کے کاروبار
آخر کسی کے در پہ ہمارا مزار تھا

مرنے پہ بھی کٹا نہ عذاب غم فراق
کنج لحد خلاصۂ شب ہائے تار تھا

آغاز عشق ہی میں مجھے چپ سی لگ گئی
اک بات بھی نہ کی کہ نفس رازدار تھا

کیا لطف دے گیا وہ فریب وفا کا دور
گویا کسی کے دل پہ ہمیں اعتبار تھا

دنیا سے رہ روان محبت گزر گئے
اس کارواں کا عالم ہستی غبار تھا

چھٹ کر قفس سے میں نہ گیا سوئے بوستاں
آخر فریب خوردۂ فصل بہار تھا

اک آہ گرم ہم نے بھری تھی شب فراق
جل کر سحر کو خاک دل بے قرار تھا

فرصت ملی نہ ہم کو تماشائے دہر کی
ہر ذرہ حسن یار کا آئینہ دار تھا

اک لخت دل بچا تھا مگر وہ بھی اے نظرؔ
آخر کو نذر دیدۂ خوں نابہ یار تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.