مفت کب آزاد کرتی ہے گرفتاری مجھے
Appearance
مفت کب آزاد کرتی ہے گرفتاری مجھے
جی ہے آخر لے کے چھوڑے گی یہ بیماری مجھے
کب ہوس ہے مجھ کو رسوائی کی لیکن کیا کروں
کھینچ کر لاتی ہے اس کوچہ میں لاچاری مجھے
میں جو بن غم خوار ہرگز جی نہ سکتا تھا کبھو
ان دنوں کرنی پڑی ہے دل کی غم خواری مجھے
عشق کے فن سے ابھی مجھ کو کہاں ہے اطلاع
کچھ نہیں آتا بغیر از نالہ و زاری مجھے
کیا لگا لیتا ہے خوباں کو یقیںؔ کرتی ہے داغ
آئنے کی سادہ لوحی ساتھ پرکاری مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |