مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
Appearance
مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعین کے در دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمع حرم رنگ جھلکتا ہے بتاں کا
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
لیکن نہیں خواہاں کوئی واں جنس گراں کا
ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
سوداؔ جو کبھو گوش سے ہمت کے سنے تو
مضمون یہی ہے جرس دل کی فغاں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |