مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
Appearance
مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
ہیں چشم و دل گھر اس کے جہاں چاہے واں رہے
مثل نگاہ گھر سے نہ باہر رکھا قدم
پھر آئے ہر طرف یہ جہاں کے تہاں رہے
نے بت کدہ سے کام نہ مطلب حرم سے تھا
محو خیال یار رہے ہم جہاں رہے
جس کے کہ ہو نقاب سے باہر شعاع حسن
وہ روئے آفتاب خجل کب نہاں رہے
آئے تو ہو پہ دل کو تسلی ہو تب مرے
اتنا کہو کہ آج نہ جاویں گے ہاں رہے
ہستی ہی میں ہے سیر عدم اس کو یاں جسے
فکر میان یار و خیال دہاں رہے
غیبت ہی میں ہے اس کی ہمارا ظہور یاں
وہ جلوہ گر جب آگے ہوا ہم کہاں رہے
بیدارؔ زلف کھینچے ادھر چشم یار ادھر
حیراں ہے دل کہاں نہ رہے کس کے ہاں رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |