ملا کر خاک میں پھر خاک کو برباد کرتے ہیں
Appearance
ملا کر خاک میں پھر خاک کو برباد کرتے ہیں
غریبوں پر ستم کیا کیا ستم ایجاد کرتے ہیں
ہزاروں دل جلا کر غیر کا دل شاد کرتے ہیں
مٹا کر سیکڑوں شہر ایک گھر آباد کرتے ہیں
موذن کو بھی وہ سنتے نہیں ناقوس تو کیا ہے
عبث شیخ و برہمن ہر طرف فریاد کرتے ہیں
حسینوں کی محبت کا نہ کر کچھ اعتبار اے دل
یہ ظالم کس کے ہوتے ہیں یہ کس کو یاد کرتے ہیں
وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |