ملتے ہی بے باک تھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
Appearance
ملتے ہی بے باک تھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
پھر گئی پچھتا کے پلکوں تک حیا آئی ہوئی
ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
مجھ کو یہ دعوی کوئی تیرے سوا دل میں نہیں
اس کا یہ الزام اچھی قید تنہائی ہوئی
بھولے بن کر ان کے منہ سے سن لیا حال رقیب
عمر بھر میں ایک ہی تو ہم سے دانائی ہوئی
بوسہ لے کر جان ڈالی غیر کی تصویر میں
یہ نیا اعجاز یہ اچھی مسیحائی ہوئی
دیکھ کر قاتل کی آمد داغؔ دل میں شاد شاد
اور غم خواروں کے منہ پر مردنی چھائی ہوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |