منہ زیر تاک کھولا واعظ بہت ہی چوکا
منہ زیر تاک کھولا واعظ بہت ہی چوکا
بیلوں نے داڑھی پکڑی خوشوں نے منہ میں تھوکا
کہتا ہے کیوں انا الحق جو قطرہ ہے لہو کا
منہ کھل گیا ہے شاید میری رگ گلو کا
شوخی جو برق کی ہے گرمی شرار کی ہے
کچھ کہہ رہا ہے موسیٰ انداز گفتگو کا
دھونا ہے وقت آخر منہ کی مجھے سیاہی
اے اشک شرم اب بھی موقع ہے شست و شو کا
کیوں طفل اشک لپٹے اے دل نہ آستیں سے
پروردہ ہے یہ میرے دامان آرزو کا
ساقی بہار در کف پھول آئے میکدے سے
طوفان اٹھ رہا ہے گلشن میں رنگ و بو کا
واعظ تجھے خبر ہے مے خانہ کس کا گھر ہے
خم اس کی پشت پر ہے کھلوا نہ منہ سبو کا
میرے بدن کے روئیں آواز دیں گے ہو کی
صحرا میں گھر ہے میرا گھر ہے مقام ہو کا
یکساں ہے خوں چکانی یکساں ہے خوں فشانی
ہیں ایک دیدہ و دل یہ جوش ہے لہو کا
سمجھے ہیں خضر جس کو صحرا نورد الفت
نقش فنا وہ اک ہے وہ پائے جستجو کا
گردوں حباب اس میں غرق آفتاب اس میں
دل کی بساط کیا ہے ایک قطرہ ہے لہو کا
کیوں اتنے اونچے جائیں کیوں الٹی منہ کی کھائیں
آتا ہے اپنے منہ پر جب آسماں کا تھوکا
دونوں بہت ہیں نازک ان نازنیں بتوں سے
اللہ ہے نگہباں ایمان و آبرو کا
انگور ہی میں اترا قسمت کا آب و دانہ
میں تھا اسی کا پیاسا میں تھا اسی کا بھوکا
میں اے ریاضؔ خوش ہوں اک بوریا ہی میں ہوں
پہلے جو ظرف مے تھا اب ظرف ہے وضو کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |