منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
صبح تک مارے مزے ہی کے وہ جاں دیتا ہے
بوسہ دینے کو تو کہتا ہے وہ مجھ سے لیکن
میں جو چاہوں کہ ابھی دے سو کہاں دیتا ہے
ناقہ گر گم نہ کرے راہ تو خود ریگ رواں
استخواں ریزۂ مجنوں کا نشاں دیتا ہے
صبح خیزوں کو بھی موت آ گئی کیا ہجر کی شب
مرغ بولے ہے نہ ملا ہی اذاں دیتا ہے
کچھ تو جگہ ہے مری دل میں بھی اس کے ورنہ
غیروں کو یوں کوئی پہلو میں مکاں دیتا ہے
دل و جاں مجھ سے وہ مانگے ہے بہائے بوسہ
ہے تو سودا بہت اچھا پہ گراں دیتا ہے
یہ دم سرد ہے کس کا کہ ہر اک نخل بہ باغ
یاد بے برگی ایام خزاں دیتا ہے
پھول جھڑتے ہیں منہ اس کے سے ہزاروں مجھ کو
گالیاں گر کبھی وہ غنچہ دہاں دیتا ہے
جان دروازے پر اس کے ہی میں جا کر دوں گا
اضطراب دل اگر مجھ کو اماں دیتا ہے
مصحفیؔ میں ہدف ناز ہوں اور واں غمزہ
دم بدم دست تغافل میں کماں دیتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |