منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
Appearance
منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
اک پردہ نشیں کا مبتلا ہوں
کیا ہجر میں ناتواں ہوا ہوں
تنکا نہ اٹھے وہ کہربا ہوں
تیری سی نہ بو کسی میں پائی
سارے پھولوں کو سونگھتا ہوں
بلبل ہے چمن میں ایک ہم درد
میں بھی کسی گل کا مبتلا ہوں
آئینہ ہے جسم صاف اس کا
کیونکر نہ کہے میں خود نما ہوں
کہتا ہے یہ مشتری فلک پر
یوسف ترے ہاتھ میں بکا ہوں
رخسار وہ رکھ کے سو گیا تھا
گل تکیوں کو روز سونگھتا ہوں
خط لکھ کے جو ہے تلاش قاصد
مانند قلم میں پھر رہا ہوں
مر جان کہی دیکھ دیکھ وہ ہاتھ
مہندی کی طرح میں پس گیا ہوں
اتنی تو جفائیں کر نہ اے بت
آخر میں بندۂ خدا ہوں
اب تو مجھے غیب داں کہیں سب
میں تیری کمر کو دیکھتا ہوں
گویاؔ ہوں وقت کا سلیماں
پریوں پر حکم کر رہا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |