موسیٰ ہیں ہمیں جلوۂ دیدار ہمیں ہیں
موسیٰ ہیں ہمیں جلوۂ دیدار ہمیں ہیں
ہیں طور ہمیں نور ہمیں نار ہمیں ہیں
منصور ہمیں ہیں سخن یار ہمیں ہیں
قاضی ہیں ہمیں شرع ہمیں دار ہمیں ہیں
کافر جسے کہتے ہیں ہمیں سے ہے اشارہ
مومن ہے غرض جس سے وہ دیدا ہمیں ہیں
فردوس اگر ہے تو ہمارے ہی لئے ہے
دوزخ کے اگر ہیں تو سزاوار ہمیں ہیں
ہیں داد و ستد دونوں یہ بندے ہی کی شانیں
بایع ہیں ہمیں اور خریدار ہمیں ہیں
مر جانے سے جو ہجر میں خوش ہے وہ ہمیں ہیں
جینے سے جو فرقت میں ہے بیزار ہمیں ہیں
قاصد ہیں ہمیں اور ہمیں کاتب نامہ
دل دار ہمیں نامۂ دل دار ہمیں ہیں
ناسوت جو مسکن ہے تو لاہوت گھر اپنا
خلوت میں ہمیں برسر بازار ہمیں ہیں
مشاطہ ہمیں اور ہمیں شانہ و گیسو
آئینہ ہمیں عکس رخ یار ہمیں ہیں
کہتے ہیں جسے کفر وہ اک شان ہے اپنی
اسلام جسے کہتے ہیں ابرار ہمیں ہیں
ناقوس کی آواز ہماری ہی صدا ہے
تکبیر کے الفاظ میں ہر بار ہمیں ہیں
دریا میں ہمیں اور ہمیں موج و صدف ہیں
قطرہ ہیں ہمیں گوہر شہوار ہمیں ہیں
اکبرؔ جو ہے مسجود دو عالم وہ وہی ہے
سجدے کے اگر ہیں تو سزاوار ہمیں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |