مژدہ یہ صبا اس بت بے باک کو پہنچا
Appearance
مژدہ یہ صبا اس بت بے باک کو پہنچا
یہ دود دل سوختہ افلاک کو پہنچا
پیغام زبانی تو نصیبوں میں کہاں تھا
نامہ بھی نہ تیرا ترے غم ناک کو پہنچا
صد چاک کیا پیرہن گل کو صبا نے
جب وہ نہ تری خوبیٔ پوشاک کو پہنچا
صحرا میں ہوسؔ خار مغیلاں کی مدد سے
بارے مرا خوں ہر خس و خاشاک کو پہنچا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |