Jump to content

مہذب قوموں کی پیروی

From Wikisource
مہذب قوموں کی پیروی
by سید احمد خان
319319مہذب قوموں کی پیرویسید احمد خان

چھوٹا بچہ اپنے سے بڑے لڑکے کی باتوں کی پیروی کرتا ہے اور کم سمجھ والا اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ سمجھدار سمجھتا ہے اور ناواقف اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ واقف کار جانتا ہے۔ اسی طرح نا مہذب قوم کو تہذیب یاٖفتہ قوم کی پیروی کرنی ضرور پڑتی ہے، مگر بعضی دفعہ یہ پیروی ایسی اندھا دھندی سے ہوتی ہے جس سے بجائے اس کے کہ اس پیروی سے فائدہ اٹھا ویں، الٹا نقصان حاصل ہوتا ہے اور جس قدر ہم نا مہذب ہوتے ہیں اس سے اور زیادہ نا شائستہ ہوتے جاتے ہیں۔

نا مہذب آدمی جب تربیت یافتہ قوم کی صحبت میں جاتا ہے تو ان لوگوں کو بہت عمدہ پاتا ہے اور ہر بات میں ان کو کامل سمجھتا ہے، ہر جگہ ان کی تعریف سنتا ہے مگر ان میں جو خراب عادتیں ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے۔ مثلا ً شراب پینا، جوا کھیلنا وغیرہ۔ پس یہ شخص ان باتوں کو بھی ان کے کمالوں ہی میں تصور کر لیتا ہے۔ ان میں جو خوبیاں اور کمالات در حقیقت ہیں ان کو تو وہ حاصل نہیں کرتا اور نہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر جو بری باتیں ان میں ہیں ان کو بہت جلد سیکھ لیتا ہے۔

ایسا کرنا در حقیقت اس آدمی کی غلطی ہے کہ اس نے ان کے نقصوں کو ان کا کمال سمجھا ہے۔ وہ لوگ بسبب کسی دوسرے کمال و لیاقت اور خوبی کے جو ان میں ہے اور بسبب دوسری عمدہ خصلتوں کے جو انہوں نے حاصل کی ہیں، مہذب و شائستہ کہلاتے ہیں، نہ بسبب ان باتوں کے جن کو اس نے سیکھا ہے۔ بلا شبہ مہذب آدمیوں کی برائیاں ان کی بہت سی خوبیوں اور کمالوں کے سبب چھپ جاتی ہیں اور لوگ ان پر بہت کم خیال کرتے ہیں، تا ہم وہ برائیاں کچھ ہنر نہیں ہو جاتیں، بلکہ جو برائی ہے وہ برائی ہی رہتی ہے، گو کہ ایک مہذب قوم ہی میں کیوں نہ ہو۔

ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی قوم گو وہ کیسی ہی عمدہ اور مہذب ہو، مگر جو برائیاں اس میں ہیں وہ اس کے وصف نہیں ہیں، بلکہ ان کے کمال کی کمی ہے جس کی پیروی ہم کو کرنی نہیں چاہیے۔ اگر ایک خوب صورت آدمی کے منہ پر ایک مسا ہو توہم کو خوب صورت بننے کے لیے ویسا ہی مسا اپنے منہ پر نہ بنا نا چاہیے کیونکہ وہ مسا اس کی خوب صورتی کا نقصان ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو یہ خیال کرنا مناسب ہے کہ اگر یہ مسا بھی اس کے منہ پر نہ ہوتا تو کتنا اور خوب صورت ہو جاتا۔

ہم بلاشبہ اپنی قوم کو اپنے ہم وطنوں کو سولیزڈ قوم کی پیروی کی ترغیب کرتے ہیں، مگر ان سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان میں جو خوبیاں ہین اور جن کے سبب و ہ معزز اور قابل ادب سمجھی جاتی ہیں اور سولیزڈ شمار کی ہوتی ہیں ان کی پیروی کریں، نہ ان کی ان باتوں کی جو ان کے کمال میں نقص کا باعث ہیں۔ اسی سبب سے جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری قوم نے کسی سولیزڈ قوم کی عمدہ خصلتوں او ر عادتوں میں پیروی کی تو ہم کو بہت خوشی ہوتی ہے اور جب یہ سنتے ہیں کہ اس نے ان کی برائیوں کی پیروی کی اور شراب پینی شروع کی اور پکا متوالا ہوگیا اور جوا کھیلنا سیکھا اور بے قید ہو گیا تو ہم کو نہایت افسوس ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری قوم عمدہ باتوں کی سیکھےگی اور بری باتوں کو ہمیشہ برا سمجھےگی۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.