میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا
Appearance
میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا
کیوں میری طرف دیکھ کے تلوار کو دیکھا
آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا
دیکھے نہ مرے اشک مسلسل کبھی تم نے
اپنی ہی سدا موتیوں کے ہار کو دیکھا
اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر
بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار کو دیکھا
دیکھا نہ کبھو کوچۂ دل دار کو رنگیں
بس ہم نے بھی اس دیدۂ خوں بار کو دیکھا
اس میں بھی در اندازوں نے سو رخنے نکالے
احساںؔ نے جو اس رخنۂ دیوار کو دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |