میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
Appearance
میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی
گو صبح دور ہے شب ہجراں کی لیک تو
اپنی طرف سے تو نہ کر اے نالہ گو تہی
ظالم پھرا مزاج نہ تیرا غرور سے
انصاف کر تو میں تری کیا کیا جفا سہی
لطموں سے بحر حسن کے ہے زلف کا یہ رنگ
لہروں میں جیسے پھرتی ہو ناگن بہی بہی
اللہ رے رعب حسن کہ اس بت کے سامنے
آئی جو بات دل سے زباں پر وہیں رہی
ہم اس فریق میں نہیں وہ اور لوگ ہیں
دنیا کے نیک و بد سے جو رکھتے ہیں آگہی
صد آفریں کہ بحر میں سوداؔ کی مصحفیؔ
اک تو نے آب دار غزل اور بھی کہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |