میرے دل میں تو ہر زماں ہو تم
Appearance
میرے دل میں تو ہر زماں ہو تم
چشم ظاہر سے کیوں نہاں ہو تم
بے وفائیں کا عیب کیسا ہے
یہ تو سچ ہے کہ میری جاں ہو تم
جب چلو ٹیٹر ہی کی چلتے ہو
میرے حق میں تو آسماں ہو تم
دل و دیں دونوں نذر کرتا ہوں
ایسی چیزوں کے قدرداں ہو تم
دیکھ غمگیں مجھے بگڑتے ہو
پر لے درجے کے بد گماں ہو تم
عرش پیمائی خیال عبث
کون پہنچا وہاں جہاں ہو تم
بات میں دل کو کھینچ لیتے ہو
کس قیامت کے خوش بیاں ہو تم
ہے سوال اور اور جواب ہے اور
سچ کہو اس گھڑی کہاں ہو تم
بچئے اغیار کی نظر نہ لگے
چشم بد دور نوجواں ہو تم
دشمنی ہم کریں تو کس کس سے
ایک عالم پہ مہرباں ہو تم
زلف کے بار سے کمر لچکے
کس قدر نازک اے میاں ہو تم
دیکھنے کی مجال ہے کس کو
مثل خورشید گو عیاں ہو تم
ہے وہی ٹھیک جو کہو مجروحؔ
کیوں نہ ہو صاحب زباں ہو تم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |