میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں
میں اس بت کا وصل اے خدا چاہتا ہوں
مرض عشق کا ہے دوا چاہتا ہوں
بیان ملاحت کیا چاہتا ہوں
سخن میں نمک کا مزا چاہتا ہوں
نہ دیکھوں میں اس گل کے پہلو میں کانٹا
اڑے غیر ایسی ہوا چاہتا ہوں
مجھے تسمہ بندی ہو اے زلف پیچاں
فقیر آج کل میں ہوا چاہتا ہوں
لگی بے طرح ہے خدا ہی بچائے
سلگتا ہے دل میں جلا چاہتا ہوں
بہت کروٹیں لیں نہیں نیند آتی
بغل میں کوئی دل ربا چاہتا ہوں
محبت میں یہ عقل زائل ہوئی ہے
کہ اہل دغا سے وفا چاہتا ہوں
کھلے حال بیمار چشم سخن گو
اشاروں میں باتیں کیا چاہتا ہوں
برا مان جاؤ گے منہ پھیر لو گے
نہ پوچھو قسم دے کے کیا چاہتا ہوں
نگاہیں الجھتی ہیں زلفوں میں بے ڈھب
ان آنکھوں کے ہاتھوں پھنسا چاہتا ہوں
مہ نو کے مصرع میں مصرع لگاؤں
میں اتنی طبیعت رسا چاہتا ہوں
ہوئے چارہ جو کب مریض محبت
خدا موت دے جو شفا چاہتا ہوں
وہی دشمن جاں ہے اے بحرؔ میرا
جسے جان سے میں سوا چاہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |