میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
Appearance
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
گرد غم دل سے دھو نہیں سکتا
اشک یوں تھم رہے ہیں مژگاں پر
کوئی موتی پرو نہیں سکتا
شب مرا شور گریہ سن کے کہا
میں تو اس غل میں سو نہیں سکتا
مصلحت ترک عشق ہے ناصح
لیک یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
کچھ بیاںؔ تخم دوستی کے سوا
مزرع دل میں بو نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |