میں جو حاصل ترے کوچے کی گدائی کرتا
Appearance
میں جو حاصل ترے کوچے کی گدائی کرتا
بندگی کہتے ہیں کس شے کو خدائی کرتا
ذرے ذرے کو ترے کوچے میں تھا مجھ سے غبار
میں جو کرتا بھی تو کس کس سے صفائی کرتا
معتکف جو ترے کوچے کے تھے اٹھتے نہ کبھی
کعبہ خود آ کے اگر ناصیہ سائی کرتا
سوچ ناحق ہے اسیران قفس کے دل کو
کیا پڑی تھی جو کوئی فکر رہائی کرتا
کانپتے ہاتھوں سے کھلتا نہ قفس اے صیاد
کاش منظور بھی تو میری رہائی کرتا
شادؔ دشمن کی شکایت کا وظیفہ بیکار
کیا غرض تھی کہ مرے ساتھ بھلائی کرتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |