میں دریائے قناعت آشنا ہوں
Appearance
میں دریائے قناعت آشنا ہوں
میں موج نشان بوریا ہوں
میں عاشق چشم سرمہ سا ہوں
گر خاک بھی ہوں تو توتیا ہوں
طفلی ہی سے وحشت آشنا ہوں
میں اس دامن دشت میں پلا ہوں
دیکھے جو مجھے جہاں کو دیکھے
میں آئنۂ جہاں نما ہوں
چل سکتے نہیں جو باغ تک بھی
طاؤس صفت عدوئے پا ہوں
دیوانہ جو ہوں تو ہوں میں خاموش
زنجیر جو ہوں تو بے صدا ہوں
تا گور بھی صفت سے نہ پہنچوں
بالفرض اگر ہزار پا ہوں
صحبت ہو برآر کس طرح یار
تو شاہ ہے اور میں گدا ہوں
ہر شعر میں زلف کی ہے تعریف
اس بحر میں موج آشنا ہوں
سنتا نہیں ایک بت مرا حال
فریادی تجھ سے اے خدا ہوں
کہتی ہے زبان حال سے موت
میں درد فراق کی دوا ہوں
کہتی ہے یہ روح تن سے ہر دم
تو خاک جو ہو تو میں دوا ہوں
یہ توسن عمر گرم رفتار
کہتا ہے میں اب چراغ پا ہوں
اے عرشؔ زیارت اب کروں گا
میں رہرو دشت کربلا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |