میں رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
Appearance
میں رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے
رہے وہ جان جہاں یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یا رب مکاں رہے نہ رہے
ابھی مزار پر احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
خدا کے واسطے کلمہ بتوں کا پڑھ زاہد
پھر اختیار میں غافل زباں رہے نہ رہے
خزاں تو خیر سے گزری چمن میں بلبل کی
بہار آئی ہے اب آشیاں رہے نہ رہے
چلا تو ہوں پئے اظہار درد دل دیکھوں
حضور یار مجال بیاں رہے نہ رہے
امیرؔ جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |