میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا
میں سمجھا جب جھلکتا سامنے جام شراب آیا
مرا منہ چومنے شاید مرا مست شباب آیا
ترے نازک سے چہرے پر جہاں رنگ عتاب آیا
صباحت رخ کی بول اٹھی کہ رخ زیر نقاب آیا
قیامت اٹھتی رہتی ہے یہاں یہ ہے گلی اس کی
کہاں پامال ہونے تو دل خانہ خراب آیا
سر تربت بھی گھوڑے پر ہوا کے وہ سوار آئے
قیامت ہم عناں آئی نہ دشمن ہم رکاب آیا
ہوئے ہنگامہ ہائے حشر کتنے گوشۂ دل میں
وہ میرے سامنے کچھ اس ادا سے بے نقاب آیا
وہ آئے سیر دریا کے لئے تو بجھ گئیں موجیں
قدم سے ان کے اپنی آنکھ ملنے ہر حباب آیا
بہت بوسے لیے ہیں میں نے ان کافر حسینوں کے
مزا آئے گا مجھ کو بھی اگر روز حساب آیا
تکلف بر طرف اے شیخ صحبت سے یہ آپس کی
مرے آگے شراب آئی ترے آگے کباب آیا
اسی کوشش میں کٹتی ہجر کی راتیں ہوئیں آخر
نہ ان کے گیسوؤں کا میرے دل میں پیچ و تاب آیا
خیال یار کے صدقے خیال یار ہی ہوگا
تسلی مجھ کو دینے کوئی وقت اضطراب آیا
تری نوک قلم نے دل میں گہرے زخم ڈالے ہیں
ہزاروں دشنہ و نشتر لیے خط کا جواب آیا
وہ تصویر آج تک محفوظ ہے چشم تصور میں
ترے بچپن سے جب اٹکھیلیاں کرتا شباب آیا
نہیں موجیں ہیں یہ سیل حوادث کے طمانچے ہیں
اسے کھانا پڑی منہ کی ابھر کر جب حباب آیا
برابر میری تربت کے کیا ہے دفن دشمن کو
یہ اچھا میرے حصے میں جہنم کا عذاب آیا
کہیں دعوت میں کل ہم اور واعظ پاس بیٹھے تھے
کوئی لے کر شراب آیا کوئی لے کر کباب آیا
لحد پر میری بھیجا ہے عدو کو فاتحہ پڑھنے
جو پہنچانے ثواب آیا وہی بن کر عذاب آیا
جو آئے بھی تو گھوڑے پر ہوا کے وہ سوار آئے
عدو بھی ساتھ سائے کی طرح تھامے رکاب آیا
ہوا بنت عنب سے عقد اس پیرانہ سالی میں
مبارک ہو مجھے ساقی بڑھاپے میں شباب آیا
نرالے ہیں یہی دنیا میں توبہ توڑنے والے
ادھر ساقی ریاضؔ آئے ادھر جام شراب آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |