Jump to content

میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گا

From Wikisource
میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گا
by سراج اورنگ آبادی
294454میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گاسراج اورنگ آبادی

میں نہ جانا تھا کہ تو یوں بے وفا ہو جائے گا
آشنا ہو اس قدر نا آشنا ہو جائے گا

خوب لگتی ہے اگر بد نامی عاشق تجھے
آہ کرتا ہوں کہ شہرہ جا بجا ہو جائے گا

گر تمہاری دل خوشی ہے ذبح کرنے میں مرے
خوب جی جاوے تو جاوے اور کیا ہو جائے گا

میں سنا ہوں تجھ لبوں کا نام ہی حاجت روا
یک تبسم کر کہ میرا مدعا ہو جائے گا

کیا عجب گر میں ہوا دیوانۂ زلف بتاں
گر فرشتہ ہووے تو ان کا مبتلا ہو جائے گا

میں تمہارے آستانے سیں جدا ہونے کا نہیں
سر اگر شمشیر سیں کٹ کر جدا ہو جائے گا

جیوں سراجؔ اس شمع رو پر دل کوں ہے ملنے کا شوق
فرض عین عاشقی سیں اب ادا ہو جائے گا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.