میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصہ میں ٹل جاؤں گا
Appearance
میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصہ میں ٹل جاؤں گا
ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا
ہم نشیں کیجیو تقریب تو شب باشی کی
آج کر نشہ کا حیلہ میں مچل جاؤں گا
دل مرے ضعف پہ کیا رحم تو کھاتا ہے کہ میں
جان سے اب کی بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا
سیر اس کوچہ کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں
جا کے بولا کہ بس اب آگے میں جل جاؤں گا
تنگ ہوں میں بھی اب اس جینے سے اے جی نہ رکا
جا نکل جا جو تو کہتا ہے نکل جاؤں گا
شور محشر سے ہے پروا مجھے کیا اے واعظ
جب کہ ہمراہ لیے دل سا خلل جاؤں گا
شوخی سے پہنچئے جوں ہند میں طوطی قائمؔ
آگے سوداؔ کے میں لے کر یہ غزل جاؤں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |