میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا
Appearance
میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا
پر تصور میں مرے اس نے نہ آنا چھوڑا
اس نے کہنے سے رقیبوں کے مجھے چھوڑ دیا
جس کی الفت میں دلا تو نے زمانا چھوڑا
اٹھ گیا پردۂ ناموس مرے عشق کا آہ
اس نے کھڑکی میں جو چلمن کا لگانا چھوڑا
ہاتھ سے میرے وہ پیتا نہیں مدت سے شراب
یارو کیا اپنی خوشی میں نے پلانا چھوڑا
تیرے غمگیںؔ کو پریشانی ہے اس روز سے یار
تو نے جس روز سے زلفوں کا بنانا چھوڑا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |