میں کہا ایک ادا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
Appearance
میں کہا ایک ادا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
دیکھ ٹک آنکھ چرا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
سب سے ہنستا تھا وہ کل، رو کے جو میں بول اٹھا
ہم سے بھی ٹک تو ہنسا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا دل کو میں لے جاؤں تو بولا وہ کہ ہوں
لے چلا جب میں اٹھا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا صبر و دل و دیں نے وفا ہم سے نہ کی
بے وفا تو تو وفا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا جام مے پیتے ہو تو بولا وہ کہ ہوں
جب کہا لاؤں چھپا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا صحبت اغیار بری ہے پیارے
ان سے اتنا نہ ملا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا عشق کو اظہار کروں بولا ہوں
جب کہا کہتا ہوں جا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا سمجھے ہے آزار مرا بولا ہوں
جب کہا کچھ تو دوا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
میں کہا اب تری دوری سے ہے جرأتؔ بے تاب
کچھ تو کہہ پاس بلا کر تو لگا کہنے اوں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |