میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث
میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث
ہوئے بے دل ہی اپنے آپ کیوں بیزار کیا باعث
عنایت کی نہیں اگلی سے اب آثار کیا باعث
کئے ہیں بند تم نے رخنۂ دیوار کیا باعث
کہا میں نے مرے گھر بھی کبھو آؤ گے یہ بولے
میں کیوں آؤں مجھے کیا واسطہ کیا کار کیا باعث
نڈر لا تقنطو پڑھ کر گناہوں سے تھا میں اپنے
یہ واعظ کیوں ڈراتے ہیں مجھے غفار کیا باعث
تمہاری خاطر واطر میں اے گل رو یہ کیا آیا سو
مجھے کیوں دیکھ کر ہنستے ہو تم ہر بار کیا باعث
فقط اک دید کو نادیدہ دل اور دیدہ ہے اپنا
تو اے بے دید دکھلاتا نہیں دیدار کیا باعث
پس مردن مری بالیں پہ رو کر یہ لگے کہنے
تو کیوں چپکا پڑا ہے عاشق بیمار کیا باعث
سخی سے سوم بہتر ہے جواب صاف جو دیوے
کبھی انکار کیا موجب کبھی اقرار کیا باعث
بگاڑ اس آئنہ رو سے نہیں گر آپ کا احساںؔ
بنی حیرت سے کیوں تم صورت دیوار کیا باعث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |