مے سے روشن رہے ایاغ اپنا
Appearance
مے سے روشن رہے ایاغ اپنا
گل نہ ہو ساقیا چراغ اپنا
ہجر میں تر ہو کیا دماغ اپنا
خشک لب آپ ہے ایاغ اپنا
نکہت زلف جب سے آئی ہے
نہیں ملتا ہمیں دماغ اپنا
کس کی ہم جستجو میں نکلے تھے
نہیں پاتے کہیں سراغ اپنا
کیا ہے مذکور مرہم کافور
جب نمک سودا ہو نہ داغ اپنا
ہے شب ہجر وادئ وحشت
دیدۂ غول ہے چراغ اپنا
رات دن گل رخوں سے صحبت تھی
یاد آتا ہے خانہ باغ اپنا
سو رہا جو لپٹ کے وہ گل تر
دل ہوا آج باغ باغ اپنا
برگ گل صاف بن گیا پھاہا
کیا معطر ہوا دماغ اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |