مے و ساقی ہیں سب یکجا اَہاہاہا اَہاہاہا
Appearance
مے و ساقی ہیں سب یکجا اَہاہاہا اَہاہاہا
عجب عالم ہے مستی کا اَہاہاہا اَہاہاہا
بہار آئی تڑانے پھر لگے زنجیر دیوانے
ہوا شور جنوں برپا اَہاہاہا اَہاہاہا
جن آنکھوں نے نہ دیکھا تھا کبھی یک اشک کا قطرہ
چلے ہیں اس سے اب دریا اَہاہاہا اَہاہاہا
مرے گھر اس ہوا میں ساقی و مطرب اگر ہوتے
تو کیسے مے کشی کرتا اَہاہاہا اَہاہاہا
کیا بیدارؔ سے عاشق کو تو نے قتل اے ظالم
کوئی کرتا ہے کام ایسا اَہاہاہا اَہاہاہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |