Jump to content

مے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے

From Wikisource
مے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے
by میر محمدی بیدار
315222مے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہےمیر محمدی بیدار

بیدارؔ کروں کس سے میں اظہار محبت
بس دل ہے مرا محرم اسرار محبت

ہر بو الہوس اس جنس کا ہوتا ہے گا خواہاں
جاں باختہ خواں ہوویں خریدار محبت

اے شیخ قدم رکھیو نہ اس راہ میں زنہار
ہے سبحہ شکن رشتۂ زنار محبت

کرتے ہیں عبث مجھ دل بیمار کا درماں
وابستہ مری جاں سے ہیں آزار محبت

بچ جاؤں اس آزار سے بیدارؔ گر اب کی
ہوں گا نہ کبھی پھر میں گرفتار محبت


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.