نالۂ دل کی صدا دیوار میں ہے در میں ہے
Appearance
نالۂ دل کی صدا دیوار میں ہے در میں ہے
صور یا محشر میں ہوگا یا ہمارے گھر میں ہے
یوں تو مرنے کو مروں گا میں مگر مٹی مری
یا فلک کے ہاتھ میں یا آپ کی ٹھوکر میں ہے
میں پریشاں ہو کے نکلوں گا تو ان کی بزم سے
میری بربادی کا ساماں ہے تو ان کے گھر میں ہے
وہ اگر دیکھیں تو اب حالت سنبھلتی ہے مری
وہ اگر پوچھیں تو اب مجھ کو شفا دم بھر میں ہے
یہ نہیں موقعہ ہنسی کا تم نظر بدلے رہو
اب قضا میری اسی بگڑے ہوئے تیور میں ہے
دے دے چلو میں اکٹھی کر کے اے ساقی مجھے
کچھ ابھی تو خم میں ہے شیشے میں ہے ساغر میں ہے
نقد جاں لینے کو مقتل میں قضا ندرت مری
بن کے دلہن رونما آئینۂ خنجر میں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |