Jump to content

نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا

From Wikisource
نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
by فانی بدایونی
299781نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کافانی بدایونی

نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
وہ بھی اک رخ ہے تری انجمن آرائی کا

آ چلا ہے مجھے کچھ وعدۂ فردا کا یقیں
دل پہ الزام نہ آ جائے شکیبائی کا

اب نہ کانٹوں ہی سے کچھ لاگ نہ پھولوں سے لگاؤ
ہم نے دیکھا ہے تماشا تری رعنائی کا

دونوں عالم سے گزر کر بھی زمانہ گزرا
کچھ ٹھکانا بھی ہے اس بادیہ پیمائی کا

خود ہی بیتاب تجلی ہے ازل سے کوئی
دیکھنے کے لیے پردہ ہے تمنائی کا

لگ گئی بھیڑ یہ دیوانہ جدھر سے گزرا
ایک عالم کو ہے سودا ترے سودائی کا

پھر اسی کافر بے مہر کے در پر فانیؔ
لے چلا شوق مجھے ناصیہ فرسائی کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.