Jump to content

نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے

From Wikisource
نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے
by حیدر علی آتش
294784نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیےحیدر علی آتش

نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے
ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لیے

نور تجلی ہے ترے رخسار کے لیے
آنکھیں مری کلیم ہیں دیدار کے لیے

فدیے بہت اس ابروئے خم دار کے لیے
چو رنگ کی کمی نہیں تلوار کے لیے

قول اپنا ہے یہ سبحہ و زنار کے لیے
دو پھندے ہیں یہ کافر و دیں دار کے لیے

لطف چمن ہے بلبل گل زار کے لیے
کیفیت شراب ہے مے خوار کے لیے

سیری نہ ہوگی تشنۂ دیدار کے لیے
پانی نہیں چہ ذقن یار کے لیے

اتنی ہی ہے نمود میری یار کے لیے
شہرہ ہے جس قدر مرے اشعار کے لیے

دشت عدم سے آتے ہیں باغ جہاں میں ہم
بے داغ لالہ و گل بے خار کے لیے

شمشاد اپنے ترے کو بیچے تو لیجئے
اس لالہ رو کی لپٹتی دستار کے لیے

دو آنکھیں چہرے پر نہیں تیرے فقیر کے
دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لیے

سرمہ لگایا کیجیے آنکھوں میں مہرباں
اکسیر یہ سفوف ہے بیمار کے لیے

حلقہ میں زلف یار کی موتی پروئیے
دنداں ضرور ہیں دہن مار کے لیے

گفت و شنید میں ہوں بسر دن بہار کے
گل کے لیے ہے گوش زباں خار کے لیے

بے یار سر پٹکنے سے ہلتا ہے گھر مرا
رہتا ہے زلزلہ در و دیوار کے لیے

بیٹھا جو اس کے سایہ میں دیوانہ ہو گیا
سایہ پری کا ہے تری دیوار کے لیے

بلبل ہی کو بہار کے جانے کا غم نہیں
ہر برگ ہاتھ ملتا ہے گل زار کے لیے

اے شاہ حسن زلف و رخ و گوش چشم و لب
کیا کیا علاقے ہیں تری سرکار کے لیے

چال ابر کی چلا جو گلستاں میں جھوم کر
طاؤس نے قدم ترے رہوار کے لیے

آیا جو دیکھنے ترے حسن و جمال کو
پکڑا گیا وہ عشق کے بیگار کے لیے

حاجت نہیں بناؤ کی اے نازنیں تجھے
زیور ہے سادگی ترے رخسار کے لیے

بیمار تندرست ہو دیکھے جو روئے یار
کیا چاشنی ہے شربت دیدار کے لیے

اس بادشاہ حسن کی منزل میں چاہئے
بال ہما کی پر چھتی دیوار کے لیے

سودائے زلف یار میں کافر ہوا ہوں میں
سنبل کے تار چاہئیں زنار کے لیے

زنجیر و طوق جو کہ ہے بازار دہر میں
سودا ہے اس پری کے خریدار کے لیے

چونا بنیں گے بعد فنا اپنے استخواں
دولت سرائے یار کی دیوار کے لیے

معشوق کی زبان سے ہے دشنام دل پذیر
شیرینی زہر ہے تری گفتار کے لیے

جان سے عزیز تر ہے مرے دل کو داغ عشق
مہتاب لحد کی شب تار کے لیے

وہ مست خواب چشم ہے کوئی بلائے بد
کیا مرتبہ ہے فتنۂ بیدار کے لیے

خلوت سے انجمن کا کہاں یار کو دماغ
وہ جنس بے بہا نہیں بازار کے لیے

پہنا ہے جب سے تو نے شب ماہ میں اسے
کیا کیا شگوفے پھولتے ہیں ہار کے لیے

چھکڑا ہوے ہیں سوچ کے راہ وفا میں پاؤں
پہیے لگائیے انہیں رفتار کے لیے

جو مشتری ہے بندہ ہے اس خوش جمال کا
یوسف بنے غلام خریدار کے لیے

سونے کے پتے ہوویں ہر اک گل کے کان میں
مقدور ہو جو بلبل گل زار کے لیے

گل ہائے زخم سے ہوں شہادت طلب نہال
توفیق خیر ہو تری تلوار کے لیے

اندھیر ہے جو دم کی نہ اس کے ہو روشنی
یوسف مرا چراغ ہے بازار کے لیے

احساں جو ابتدا سے ہے آتش وہی ہے آج
کچھ انتہا نہیں کرم یار کے لیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.