نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے
Appearance
نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے
ہماری خاک سے دیکھو تو کچھ رہا بھی ہے
ترا غرور مرا عجز تا کجا ظالم
ہر ایک بات کی آخر کچھ انتہا بھی ہے
جلے ہے شمع سے پروانہ اور میں تجھ سے
کہیں ہے مہر بھی جگ میں کہیں وفا بھی ہے
خیال اپنے میں گو ہوں ترانہ سنجاں مست
کراہنے کے دلوں کو کبھی سنا بھی ہے
زبان شکوہ سوا اب زمانہ میں ہیہات
کوئی کسو سے بہم دیگر آشنا بھی ہے
ستم روا ہے اسیروں پہ اس قدر صیاد
چمن چمن کہیں بلبل کی اب نوا بھی ہے
سمجھ کے رکھیو قدم خار دشت پر مجنوں
کہ اس نواح میں سوداؔ برہنہ پا بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |