Jump to content

نصیحت (ماسٹر رام چندر)

From Wikisource
319274نصیحتماسٹر رام چندر

چند سطور جو آگے بیان ہوتی ہیں، توقع کرتا ہوں کہ ناظرین اس پرچے کے بغور و تامل ملاحظہ فرمائیں گے۔ ہفتہ گذشتہ میں بندہ کو ایک مہربان کی ملاقات کے واسطے ان کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جب وارد ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ مکان پر تشریف نہیں رکھتے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ اگر بے ملے ان سے چلا جاؤں گا تو بباعث موانع امورات دنیوی کے خدا جانے پھر کب اتفاق ان کی ملاقات کا ہو۔ اس لحاظ سے ارادہ کیا کہ جب تک وہ تشریف لائیں ان کا انتظار کرو مگر باعث تنہائی کے ان کے دیوان خانے میں میری طبیعت لگی نہیں۔ ان کے باغیچے میں پھرنے لگا۔ اشجار پر ثمر اور گلہائے نو بہار کی سیر کرتا ہوا ایک ایسے تختہ پر پہنچا جہاں جھاڑ گلاب کے تھے۔

وہاں دیکھتا کیا ہوں کہ ایک لڑکا بغور ایک پھول گلاب کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم اتنے فکر و تامل سے اس گل کو کیوں دیکھ رہے ہو، اس لڑکے نے جواب دیا کہ جناب عالی یہ دو درخت جو آپ ملاحظہ کرتے ہیں، میرے والد نے مجھ کو عطا فرمائے تھے اور ارشاد کیا تھا کہ تم سے جس قدر ان کی خبرداری ہو سکے، قصور نہ کرنا، ان کی حالت دیکھ کر ہم دریافت کر لیں گے کہ تم اس سے بے خبر تو نہیں ہو، سو جناب اس روز سے میں ان کی خبرداری کرتا تھا اور یہ خیال تھا کہ اول پھول جو کھلے ہیں ان کی نذر کروں گا، سو کل یہ اتفاق ہوا تھا کہ ایک غنچہ اس درخت میں (میرے تئیں اپنے پاس بلا کر دکھایا) لگایا تھا، اور میں نے اسے آکر دیکھا۔ مجھے کمال خوشی ہوئی کہ اب میں ان کو دوں گا اور یہ شوق ہوا کہ کسی طرح سے یہ جلد کھل جاوے تو میں ان کے پاس لے جاؤں اور یہ خیال کیا کہ اگر چھوٹی چھوٹی پتیاں جو اس غنچہ کے گرد ہیں انہیں ہاتھ سے ادھر ادھرکردوں تو یہ پھول بباعث حرارت آفتاب اور لگنے ہوا کے جلد کھل جائے گا۔

یہ سوچ کر اسی طرح کیا اور تھوڑی دیر کے واسطے چلا گیا۔ چونکہ شوق کمال تھا، زیادہ نہ ٹھہر سکا۔ پھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پتیاں پھول کے برعکس میری آرزو کی کملا گئی ہیں اور چند قریب خشک ہوگئیں۔ مجھے اس وقت کمال ناامیدی ہوئی اور خیال کیا کہ میں نے غنچہ کو زیادہ کھول دیا۔ اب کی اگر کوئی پھول آوے گا تو ہوشیاری کام میں لاؤں گا۔ چنانچہ آج صبح پھر دیکھا تو ایک اور غنچہ اسی درخت میں پایا۔ ویسا ہی شوق پھر دامن گیر ہوا لیکن کل کا حال جو مجھے یاد تھا، غنچے کو زیادہ نہ کھولا اور اسے کھلنے کی فرصت دی اور بعد ایک پہر کے اب آیا تھا اور قطعی خیال تھا کہ جاتے ہی اس پھول کو جو اب کھل گیا ہوگا لاکر اپنے والد کی نذر کروں گا سو کل کی سی ناامیدی آج پھر ہے۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس کی کیا حالت ہے۔ میں نے جو دیکھا تو فی الحقیقت کملا گیا تھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج میں نے اسے بہت ہوشیاری سے کھولا تھا۔ اب یہ کیوں مرجھا گیا۔ یہ تمام اس کی سرگذشت سن کر میں نے جواب دیا، صاحب زادے جو چیزیں قدرت سے تعلق رکھتی ہیں، اس میں انسان موافق اپنی طبیعت کے اپنی حکمت سے کم وبیشی نہیں کرسکتا ہے۔ اگر اس پھول کی سبز پتیاں ادھر ادھر سے نہ اٹھاتے اور منتظر اس کے خود کھلنے کے رہتے تو یہ موافق تمھاری طبیعت کے کھلتا۔ اتنی بات اس لڑکے سے کہتے ہی مجھے خیال آیا کہ یہ ہی حال اکثر مربیان بچوں کا ہے۔ جو تدبیر وہ اپنی رائے میں مناسب جانتے ہیں، بدون خیال کرنے حالت یا مزاج، بچہ کے عمل میں لاتے ہیں اور اس کا نتیجہ برعکس ان کے مطلب کے ظہور میں آتا ہے۔

اب اکثروں کو دیکھتا ہوں تو وہ واسطے حفظ تندرستی اپنے بچے کے اس کو اشیا مقوی کھلاتے ہیں۔ اس نظر سے کہ بباعث ہونے طاقت کے بیماری اس پر اثر نہیں کرے گی۔ لیکن یہ نہیں خیال کرتے کہ وہ چیزیں وہ بچہ ہضم بھی کر سکے گا اور اوروں کو یہ دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اکثر اشیاء کے کھانے سے باز رکھتے ہیں۔ اس نظر سے کہ وہ بیمار نہ ہو جائیں۔ یہ نہیں خیال کرتے کہ اگر ان بچوں کے مزاج سے وہ اشیاء موافق آویں تو کس قدر کثیر فائدہ بخشیں۔ الغرض حاصل کلام یہ ہے کہ مربیوں کو چاہئے کہ کھانا پینا اشیاء خوردنی و نوشیدنی کا بچوں کی طبیعت پر چھوڑ دیں مگر نگران حال رہیں۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.