نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
Appearance
نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
خیال اس کا نہیں مطلق کسی کو
نہ تھا عاشق کے خوں میں رنگ گل زار
کوئی تو دے گیا رونق کسی کو
مقید میں مقید ہے وہ مطلق
نہ سوجھا اتنا بھی مطلق کسی کو
نہ کر اتنی بھی ناصح ہرزہ گوئی
خوش آتی کب ہے یہ بق بق کسی کو
فریب مدعی کھاتے ہیں کب ہم
مگر سمجھا ہے وہ احمق کسی کو
جگر ہے چاک چاک آستیں سے
دکھائی تو نے کیا مرفق کسی کو
ریاض وصل سے وقت سقیمی
نہ ہاتھ آئی کبھی سرمق کسی کو
تصور میں ترے اے شعلۂ حسن
نہیں آرام چوں زیبق کسی کو
بھروسا کیا ہے دل کا بحر غم میں
ڈبو دیوے نہ یہ زورق کسی کو
نکلنے آپ سے دیتا نہیں آہ
طلسم گنبد ارزق کسی کو
دکھا دے چاندنی میں اپنا مکھڑا
صنم مل کر ذرا ابرق کسی کو
وحیدؔ دہر ہے اے مصحفیؔ تو
نہ اپنے ساتھ کر ملحق کسی کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |