نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی
Appearance
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی
لو آؤ اور بات سنو وہ نہیں سہی
چھوڑوں گا میں نہ ہاتھ چلے آؤ ساتھ ساتھ
نازک کلائی دکھتی ہے تو آستیں سہی
مشق جفا کے واسطے کس کی تلاش ہے
کوئی اگر نہیں ہے تو یہ کمتریں سہی
اقرار کر کے گھورتے ہو کیوں مری طرف
باور سہی یقین سہی دل نشیں سہی
بیداد کر کے چاہتے ہو پھر جفا کی داد
بہتر بجا درست صحیح آفریں سہی
سجدے ہی کرتے جائیں گے ہم تیری راہ میں
ہے نقش پا سے عار تو نقش جبیں سہی
بے دل لگی بھی داغؔ گزرنی محال ہے
وہ دل نہیں سہی وہ تمنا نہیں سہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |