نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
Appearance
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا
رسم قلمرو عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا
تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے
میں نے جو ہاتھ کھینچا ان نے کٹار کھینچا
مستی میں شکل ساری نقاش سے کھنچی پر
آنکھوں کو دیکھ اس کی آخر خمار کھینچا
جی کھنچ رہے ہیں اودھر عالم کا ہوگا بلوہ
گر شانے تو نے اس کی زلفوں کا تار کھینچا
تھا شب کسے کسائے تیغ کشیدہ کف میں
پر میں نے بھی بغل بغل بے اختیار کھینچا
پھرتا ہے میرؔ تو جو پھاڑے ہوئے گریباں
کس کس ستم زدے نے داماں یار کھینچا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |